قبرستان کے مجاور

مشرف کو امریکی دھمکی کا خوف تھا اور ڈالر لینے کا شوق تھا سو انہوں نے تعمیل سرکار میں شرف انسانیت کی بھی پروا نہ کی‘ جس پر انگلی رکھی گئی‘ جس پر سرکار کا دل آیا اسے جانوروں کی طرح باندھ کر سرکار کے طویلوں کی زینت بنانے کے لئے امریکی ایجنسیوں کے حوالے کر دیا۔ گوانتاناموبے کے عقوبت خانوں سے ہفت آسمان کی جانب بلند ہونے والی انسانی آہیں‘ کراہیں اپنے آقا کے لئے مشرف کی تابعداری کی گواہی دیتی رہیں۔ نہ جانے کتنے شرفا کو ان کے باریش اور صوم و صلوٰة کا پابند ہونے کی سزا دی گئی۔ آقا نے مسلم امہ کے خلاف کروسیڈ شروع کر رکھی تھی جس میں ہر باریش مسلمان دہشت گرد قرار پاتا تھا اور ہمارے کمانڈو جرنیل اپنی رعایا کے لئے دہشت کی علامت اور اپنے آقا کے لئے ادنیٰ غلام بنے بیٹھے تھے۔ ملک کے ہزاروں بے گناہ شہریوں کو دن کے اجالوں میں اور رات کی تاریکیوں میں گھروں‘ بازاروں سے اٹھا کر یوں منظر سے غائب کر دیا گیا جیسے اس قدوقامت‘ جسامت اور چہرے مہرے کے انسان اس روئے زمین پر موجود ہی نہیں تھے۔
ریاستی اتھارٹی کے اس ظلم و جبر کی ایسی داستانیں رقم ہوئی ہیں کہ خدا کی پناہ‘ اس دھرتی نے شائد ہی پہلے انسانی مظالم اور ان کے آگے انسانی بے بسی کے ایسے مناظر دیکھے ہوں۔ صفحہ ہستی سے سرکائے گئے ا ن بے بس انسانوں کے اہل خانہ‘ ورثائ‘ عزیزواقارب پر کیا گزری‘ ان کا پل پل کیسے بیتا‘ تاریخ کے اوراق کم پڑ جائیں گے مگر ظلم کی یہ داستانیں ختم نہیں ہوں گی۔ لاپتہ افراد کے لواحقین نے دہائی دینے کے لئے ایک تنظیم بنائی جس میں آمنہ جنجوعہ کی نحیف نسوانی آواز حق و صداقت کی مضبوط آواز بن گئی۔ مسلم امہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے عزائم رکھنے والی بیرونی طاغوتی قوتوں کے فنڈز پر پلنے والی مادر پدر آزاد این جی اوز میں تو انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے بھی مشرف دور میں لاپتہ کئے گئے افراد کے اہلخانہ کے ساتھ ہمدردی کا ہلکا سا جذبہ پیدا نہ ہو سکا مگر تنہا آمنہ جنجوعہ نے جتنی شدت سے ریاستی مشینری اور انصاف کے ایوانوں کو جھنجوڑا وہ اب ایک ضرب المثل بن چکا ہے اور پھر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اس وطن عزیز کے حقیر بنائے گئے باعزت شہریوں کی جس لگن کے ساتھ دادرسی کی اپنے از خود اختیارات استعمال کئے اور اپنے معاشرے کی برتری کے زعم میں مبتلا قانون شکنوں اور انسانی حقوق کی علمبرداری کے نام نہاد دعوے داروں کو چیلنج کرتے ہوئے اپنے وطن عزیز کے بے بس اور مظلوم شہریوں کو ان کے چنگل سے نجات دلائی۔ یہ کارنامہ بھی تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف کے ساتھ محفوظ ہو چکا ہے۔
اب تو انسانیت کے جعلی ٹھیکیدار امریکہ کی اپنی عدالتیں‘ اپنے وکلاءاور اپنے قوانین اس کے طفیلی جرنیلی آمر کی وساطت سے اس کے ظلم و جبر کی بھینٹ چڑھنے والے معصوم پاکستانی باشندوں کی بے گناہی کی گواہی دے رہے ہیں۔ دیندار گھرانے کی اعلیٰ تعلیم یافتہ سلجھی ہوئی نفیس خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کے جعلی محافظوں اور فی الحقیقت وحشی درندوں کی جانب سے جو ننگ انسانیت سلوک روا رکھا گیا‘ اس کی بے گناہی ثابت ہونے پر کیا ان خود ساختہ برتر وحشی انسانوں کو اب ایسے ہی ننگ انسانیت سلوک سے نہیں گزارا جانا چاہئے اور کیا ہمارے حکمرانوں کو اب اپنے بے گناہ معصوم شہریوں کی ان وحشی درندوں کے ہاتھوں تذلیل کرانے پر پوری قوم سے معافی نہیں مانگنی چاہئے اور امریکہ سے ہرجانہ طلب کر کے اپنے بے تقصیر شہریوں کی عزت نفس کی بحالی کا اہتمام نہیں کرنا چاہئے مگر یہ کیا غضب ہے کہ سلطانی¿ جمہور والوں نے تو کمانڈو جرنیلی آمریت سے بھی دو قدم آگے چھلانگیں لگانا شروع کر دی ہیں۔ گذشتہ ماہ پریڈ گرا¶نڈ مسجد پر دہشت گردی کے واقعہ کے بعد کسی شبہ میں جو غالباً اس پاک دھرتی پر دندنانے والے امریکی میرینز اور بلیک واٹر کے غنڈوں کا پیدا کردہ تھا‘ اسلام آباد کے اندر پاکباز گھرانوں پر وحشت و بربریت کے جو پہاڑ توڑے گئے کیا اس پر مشیت ایزدی نے جوش نہیں مارا ہو گا؟ غضب خداکا ایک ریٹائرڈ ضعیف العمر پروفیسر احسان کو رات کی تاریکی میں بھینچتے کھینچتے گھر سے یوں گھسیٹ کر دبوچا گیا جیسے ان کے ہاتھ امریکی ”معصومین“ کے خون سے رنگے ہوئے ہوں۔ ان کی اہلیہ سابق ایم این اے اور ہماری محترمہ کالم نگار عامرہ احسان کے انسانیت کو جھنجوڑنے والے کالموں کا خمیازہ ان کے ضعیف العمر شوہر کو بھگتنا پڑا۔ پہلے پکڑا‘ چھوڑا پھر پکڑا اور اس کو راندہ¿ درگاہ بنا دیا۔ بزرگ‘ پاکباز‘ باپردہ خاتون نجمہ ثناءکو غائب کر کے نہ جانے کس کو خوش کیا گیا۔ ایک معذور نوجوان کو بھی نہ بخشا گیا اور اس کے باریش ہونے کی سزا اسے دہشت گرد بنا کر دی گئی۔ یہ ہیں ہمارے والیان ملک و مختار جو اپنی رعایا کی عزتوں‘ عفتوں کے ر کھوالے ہیں۔ تقدیس ملت کے پاسبان ہیں۔ اسی باڑ کے ہاتھوں کھیتی اجڑ رہی ہے اگر ان مجبور و مقہور بے گناہ دکھی انسانوں کی فریاد پر عدلیہ بھی کان نہ دھرے تو ان کی جائے پناہ کہاں بنے گی۔ بیگم نجمہ ثناءکو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی ہدایت پر گذشتہ روز عدالت میں پیش کیا گیا تو عقدہ کھلا کہ اسے غائب کرنے اور جرم بے گناہی کی سزا دینے والے وہی تھے جو اس وطن عزیز کے شہریوں کی عزت اور زندگی کے تحفظ کے ضامن بنائے گئے ہیں۔ عدالت کے روبرو بیگم نجمہ ثناءکا یہ بیان کہ دوران تفتیش و حراست اسے جتنی اذیتیں دی گئیں‘ وہ نائن الیون جیسے گھنا¶نے جرم کا بھی اعتراف کر سکتی تھیں مگر خدائے بزرگ و برتر نے انہیں استقامت دی اور آج وہ اپنے پا¶ں پر عدالت کے روبرو کھڑی ہیں۔ ظالم کون ہے‘ جرم کس کا ہے‘ سزا کس کو ملنی چاہئے‘ ظلم ہماری سرزمین پر ہوا یا امریکہ کی ناپاک دھرتی پر‘ طریقہ کار تو ایک ہی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی‘ بیگم نجمہ ثنائ‘ پروفیسر احسان اور غائب کئے گئے دیندار گھرانوں کے دیگر افراد کی مظلومیت کی داستانیں تو ایک جیسی ہی ہیں۔ پھر ہم صرف امریکہ کو کیوں روئیں۔ اپنے والیان ملک و ملت کا کیوں نہ سیاپا کریں۔ یہ کس کو خوش کر رہے ہیں‘ کس کی انا کی تسکین چاہتے ہیں۔ اس کا جواب کون دے گا اور ان سے جواب کون لے گا۔ اگر آج عدلیہ آزاد نہ ہوتی اور اسے ملک و ملت کی حفاظت کی دردمندی نہ ہوتی تو اس ملک خداداد کے قبرستان بننے میں کیا دیر رہ گئی تھی اور قبرستان پر تو مجاور ہی حکمرانی کیا کرتے ہیں!

ای پیپر دی نیشن