ارفع کریم کی یاد میں

Jan 15, 2013

ڈاکٹر حسین احمدپراچہ

آج ہم ارفع کریم کی پہلی برسی نم ناک آنکھوں سے منا رہے اور دعاگو ہیں خدا ہمیں ایسے ہونہار بچوں سے نوازتا رہے۔ ایک ایسے دور میں کہ جہاں گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے پاکستان کو ہر طرف سے بد نامی ہی بد نامی ملی ہو،کبھی دہشت گردی کی بد نامی کبھی قومی سلامتی پر سودے بازی کی بدنامی، کبھی صدارتی کرپشن کی بد نامی، کبھی بری حکمرانی کی بدنامی، کبھی کرکٹرز کی لائی ہوئی بدنامی۔ ان حالات میں بھی پاکستان کی قسمت میں ایک بہت بڑی نیک نامی لکھ دی گئی تھی۔یہ نیک نامی عالمی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے حصے میں آئی اور چہار دانگِ عالم اس نیک نامی کا چرچا ہوا۔یہ نیک نامی9سالہ پاکستانی بچی ارفع کریم کے کارنامے سے ہمارے حصے میں آئی۔ ارفع کریم نے 2004 میں صرف 9سال کی عمر میں مائیکرو سافٹ پروفیشنل کا اعزاز حاصل کرلیا۔ارفع ساری دنیا میں یہ اعزاز حاصل کرنے والی سب سے کم عمر بچی تھی۔ اتنی بالی عمریا میں آج تک کسی بچے یا بچی نے وہ اعزاز حاصل نہ کیا تھاجو اس عظیم پاکستانی بچی کے حصے میں آیا۔اس کا نام ہی نہیں اس کا کام بھی ارفع تھا اس کے خیالات،اسکے نظریات،اسکے جذبات و احساسات بھی ارفع تھے۔ارفع مائیکرو سافٹ اعزاز حاصل کرنے کے بعد صرف 8برس زندہ رہی۔ مگر ان سترہ برس میں اُس نے وہ وہ کارنامے انجام دئیے جو بڑے بڑے ذہین و فطین اشخاص ستر ستر اور اسی اسی برس کی عمر تک بھی انجام نہیں دے پاتے۔ غالباً ارفع کواحساس ہوگیا تھا کہ اس کے پاس مہلت زندگی کم ہے اور اس زیاں خانے میں زندگی ایک بار پھر ہارنے والی ہے۔اس لئے صرف سترہ سالوں میں اس نے کوئی ایک لمحہ کوئی ایک ثانیہ ضائع نہیں ہونے دیا۔ ارفع نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے کہ علامہ اقبالؒ اس کے پسندیدہ شاعر ہیں اس نے اقبال کے فلسفہ¿ حیات وموت کو نہ صرف اچھی طرح سمجھا بلکہ اسے احساس ہوگیا تھا کہ اقبال نے بعض اشعار تو جیسے براہِ راست ارفع کیلئے ہی کہتے تھے۔اس نے اپنے پسندیدہ شعر کے طورپر اپنی ڈائری میں لکھا ہے....
قلزمِ ہستی سے تو ابھرا ہے مانندِ حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی
 ارفع ایک سابق فوجی کریم رندھاوا کی بیٹی تھی۔ یوں سمجھیے کہ اسے جھولے سے ہی آئی ٹی کا شوق تھا۔2004 میں صرف 9سال کی عمر میں وہ ایک مائیکرو سافٹ پروفیشنل بن گئی۔ مائیکروسافٹ کمپنی کے چیئر مین بل گیٹس نے ارفع کو دعوت دے کر امریکہ بلایا اور اسے مستند مائیکرو سافٹ پروفیشنل کی سندِفضیلت عطا کی۔ اس موقع پر ارفع نے بل گیٹس کے بارے میں ایک نظم بھی لکھی۔ وہ شاعرہ بھی تھی اور اظہار و بیان سے قدرت رکھنے والی شاعرہ ندرتِ خیال والی شاعرہ، خوبصورت پیرایہ¿ اظہار میں شدّت جذبات کودوسروں تک منتقل کرنے والی شاعرہ اور قومی و ملّی شعورو احساس رکھنے والی شاعرہ۔ میں ارفع کی ڈائری حاصل کرکے اس کے خیالات اور اس کی شاعری سے پاکستان کی نوجوان نسل کو ضرور روشناس کراﺅںگا۔ سردست اس کا صرف ایک مصرع سن لیجئے....ع
 جانا ہے تجھے کہیں اور تو کہیں ہے
2005 میں جبکہ اس کی عمر صرف دس برس تھی۔دوبئی کی آئی ٹی پروفیشنل سوسائٹی نے اسے دعوت دی اور دو ہفتوں تک وہ اُن کے اجلاسوں میں شرکت کرتی رہی اور آئی ٹی کے بارے میں اپنی معلومات اور اپنی مہارت سے اس کانفرنس کے شرکاءکو ورطہ¿ حیرت میں ڈالتی رہی۔انہیں اپنی آنکھوں پریقین نہیں آتا تھا کہ ایک دس سالہ بچی اُن کے سامنے بیٹھی ایسی عالمانہ اور ماہرانہ گفتگو کررہی ہے جس گفتگو پر بڑے بڑے سکالر اور ماہرین دسترس نہیں رکھتے۔
ارفع لاہور گرائمر سکول میں اے لیول سال دوم کی طالبہ تھی۔ وہ اپنی ہم عمر لڑکیوں سے بہت مختلف تھی۔ بہت آگے تھی اور اسم با مسمّٰی یعنی ارفع و اعلیٰ تھی۔ اس ساری پرواز میں ارفع کی نگاہ اپنے وطن پر رہی۔....ع
 آنکھ طائر کی نشیمن پر رہی پرواز میں
اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ صبر وہ ہے جو پہلی چوٹ پر کیا جائے۔ اس زیاں خانے میں ارفع کا زیاں اوروہ بھی صرف سترہ برس کی عمر میں سارے وطن کیلئے بالعموم اور اس کے والدین اور عزیز و اقارب کے بالخصوص بہت بڑا زیاں اور بہت بڑا صدمہ تھا مگر ارفع کے والد اور والدہ نے اس صدمے کو بڑے صبر اور حوصلے کے ساتھ برداشت کیا۔ ارفع کے والد نے ٹیلی ویژن پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جس کی امانت تھی اس نے اپنی امانت واپس لے لی۔ہم اس کی رضا پر دل و جان سے راضی ہیں۔ اس موقع پر میڈیا قدم قدم پر اُن کے ساتھ رہا۔ارفع کے پسندیدہ شعر کے مطابق....
قلزمِ ہستی سے تو ابھرا ہے مانندِ حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی
 اس امتحان میں زندگی تو ہار گئی ہے مگر ارفع جیت گئی ہے اس کی یاد ہمیشہ ہمارے دلوں میں جگمگاتی رہے گی اور وہ ہمارے لئے ہر قدم پر مشعل راہ ثابت ہوگی۔

مزیدخبریں