قیام پاکستان انڈین انڈیپینڈس ایکٹ INDIAN INDEPENDENCE ACT کے ذریعے ظہور پذیر ہوا جسے برطانوی پارلیمنٹ نے پاس کیا تھا۔ یہ ایکٹ ایک غلام ملک کے لئے تھا جسے ”ڈومینن“ کا درجہ دیا گیا تھا۔ الطاف حسین قائداعظم کے پاکستان میں بھارت سے آئے۔ پھر کوئی وجہ ہو گی یہ وہی جانتے ہیں یا ان کے مرید وہ برطانیہ جا مقیم ہوئے۔ اور سالہا سال سے وہاں مقیم ہیں اس کے شہری بھی ہیں اور پاکستان کے بھی‘ قائداعظم تو جب برطانیہ میں مقیم تھے پاکستان معرض وجود میں ہی نہیں آیا تھا۔
پاکستان اور ہندوستان کو اپنے اپنے دستور بنانے تک ڈومینن ہی رہنا تھا۔ ہندوستان نے 1949ءمیں دستور سازی مکمل کر لی لیکن ہم 1956ءمیں دستور بنانے میں کامیاب ہوئے۔ گورنر جنرل کی تقرری کی علامتی منظوری برطانوی بادشاہ یا ملکہ سے لی جاتی تھی۔ علامتی منظوری یوں کہ تقرر یا انتخاب تو ملک خود کرتا تھا یعنی اسمبلی میں اکثریتی جماعت کرتی تھی لیکن رسمی منظوری برطانیہ سے لی جاتی۔ اس میں ردوبدل کا ہرگز اختیار حاصل نہیں تھا۔ جس حلف کا ذکر جناب الطاف حسین نے کیا ہے وہ ہندوستان آزادی قانون کا حصہ تھا اس حلف کا پہلا حصہ اسکی اصل روح ہے۔ جس کا ذکر جناب الطاف حسین نے نہیں کیا۔ اس کا ذکر نہ کرنا بے انصافی اور بدنیتی ہے۔ قائداعظم کے بطور اولین گورنر جنرل حلف کے الفاظ درج ذیل تھے۔
ترجمہ: میں اظہار حلفی کرتا ہوں کہ میری سچی وفاداری اطاعت پاکستان کے آئین سے ہے اور یہ کہ میں برطانوی بادشاہ جارج ششم اور اسکے جانشینوں سے بطور گورنر جنرل وفادار رہوں گا۔) بحوالہ خالد بن سعید صفحہ 307 اور قیوم نظامی قائداعظم صفحہ نمبر 48 الطاف حسین نے ذہانت سے کام لیتے ہوئے گورنر جنرل کے حلف کے وہ فقرے قابل ذکر نہ سمجھے جن میں قائداعظم نے آئین پاکستان سے سچی وفاداری اور اطاعت کا یقین دلایا تھا۔ کیا جناب الطاف حسین اور ڈاکٹر طاہر القادری نے غیر ملکی شہریت کے لئے جو حلف اٹھائے ہیں ان میں آئین پاکستان کی سچی اطاعت کا ذکر ہے؟ کیا انہوں نے برطانیہ اور کینیڈا سے وفاداری اور جنگ کی صورت میں پاکستان کے خلاف لڑنے کے جو حلف اٹھائے ہیں وہ غلامی سے آزادی کے سفر کا حصہ ہیں یا اپنی مرضی اور درخواست کا نتیجہ؟ ان کے حلفوں کا قائداعظم کے حلف سے کیا موازنہ؟
حلف کے حوالے سے الطاف حسین صاحب نے ایک اور ڈنڈی بھی ماری۔ فرمایا نہرو نے تو یہ حلف نہیں اٹھایا تھا۔ حضور والا نہرو اور لیاقت علی خان وزیراعظم تھے جنہیں قانون کے مطابق گورنر جنرل نے مقرر کرنا تھا۔ ان کا حلف اپنی حکومت نے تحریر کرنا تھا‘ وہ برطانوی قانون کا حصہ نہیں تھا۔ چنانچہ جو حلف نہرو نے اٹھایا وہی حلف لیاقت علی خان نے اٹھایا۔ آپ وزیراعظم نہرو کا مقابلہ گورنر جنرل سے کیوں کر رہے ہیں؟ اس حوالے سے قائداعظم کا جو پاسپورٹ دکھایا گیا وہ برٹش انڈیا کا جاری کردہ تھا نہ کہ حکومت برطانیہ کا شاید آپ بھول گئے کہ ہندوستان برطانوی ایمپائر (سلطنت) کا حصہ تھا۔ ہم سب رعایا تھے۔ ہندوستان کالونی تھا اس لئے پاسپورٹ برٹش انڈیا کی جانب سے جاری ہوتے تھے جس کا مطلب ہندوستان کا شہری تھا نہ کہ برطانیہ کا برطانیہ کے شہریوں کے لئے جو پاسپورٹ جاری ہوتے تھے۔ ان پر گریٹ برٹین لکھا ہوتا تھا۔
یہی پاسپورٹ نہرو اور گاندھی کا تھا جو قائداعظم کا تھا۔ اس سے آپ نے دوہری شہریت کا نتیجہ کیسے نکال لیا؟ موضوع تفصیل طلب ہے لیکن کالم محدود‘ گزارش ہے کہ اپنی دوہری شہریت کا جواز ڈھونڈھتے کےلئے بانی پاکستان کی عظیم شخصیت کو متنازعہ نہ بنائیں اور نہ قومی اتحاد کی علامتوں کو کمزور کریں۔ یہ توقع کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ الطاف حسین نے جس طرح میڈیا کے حوالے سے معذرت کی‘ سپریم کورٹ سے معافی مانگی اسی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قائداعظم کے حوالے سے بھی قوم سے معذرت کرینگے کیونکہ انکے بلاضرورت تبصروں نے اکثر پاکستانیوں کے جذبات مجروح کئے ہیں۔ غلط بات پر معافی مانگنا عظمت ہے اور اس پر اڑ جانا حماقت۔!! .... (ختم شد)