لانگ مارچ کو راولپنڈی میں روکنے کی کوشش کی گئی تو مزاحمت کریں گے: شیخ رشید
شیخ جی اگر آپ کے ساتھ مزاحمت کرنے جتنے افراد ہوتے تو یقینی طور پر آپ 2 مرتبہ پنڈی سے شکست کھا کر اپنی ضمانت ضبط نہ کرواتے۔ دنیا میں سات عجوجے تو بڑے مشہور ہیں لیکن آٹھواں عجوبہ ہمارے شیخ پنڈی ہیں۔ ان کے بیان سُن کر شیخ چلی بھی ہنستا ہو گا....ع
”پلے نہیں دھیلا تے کردی میلہ میلہ“
فرزندِ پنڈی پر یہ خوب صادق آتا ہے۔ شیخ رشید کو سیاست سے ریٹائرمنٹ لیکر صرف نوجوانوں کی سیاسی تربیت کرنی چاہئے جس طرح ہمارے کھلاڑیوں کا بلا جب نہیں چلتا تو وہ ریٹائرمنٹ لیکر بیٹنگ کوچ، بولنگ کوچ بن جاتے ہیں، اسی طرح شیخ جی نے سیاست کی بڑی لمبی اننگز کھیل لی ہے انہیں اب لال حویلی میں سیاسی جماعتوں کی نوجوان نسل کیلئے ٹریننگ سنٹر کھول لینا چاہئے۔
ٹاک شوز میں جانے کیلئے بھی ٹریننگ کی جائے اور سیاسی گُر سیکھا کر انہیں سیاست کے میدان میں اتارا جائے اس سے لال حویلی کی رونقیں بھی بحال ہو جائیں گیں اور شیخ جی کا دل بھی لگا رہے گا اگر کچھ ٹائم بچ جائے تو کسی ٹی وی نیٹ ورک کے ساتھ معاہدہ کر کے باقاعدہ سیاسی اصولوں کا سبق دیا جائے کہ لوٹا کیسے بنا جاتا ہے، کس کس موقع پر بننا چاہئے، اپنی قیمت بڑھانے کیلئے آپ حکومت اور سیاسی جماعت کو بلیک میل کیسے کر سکتے ہیں ویسے بھی سیاست کے اصول شیخ جی سے زیادہ کون جانتا ہے کیونکہ اس معاملے میں تو وہ ”شیخِ کُل“ ہیں گرچہ عقلِ کُل آجکل کچھ ڈاواں ڈول ہے کیونکہ عمران خان کی رفاقت کے باوجود وہ عوام میں نہیں بلکہ ٹی وی پر ہی نظر آتے ہیں لیکن انکے پرانے دوست ان سے پنجابی زبان میں یوں شکوہ کرتے ہیں ....
کوئی کڈو حل ملاقاتاں دا کیوں اتنے دور ہو گئے او
اگے کدی نا لاپروائی کیتی جیڈے ہن مغرور ہو گئے او
شک پوندا نویاں لگدیاں توں میرا چن مجبور ہو گئے او
توہاڈی نیت تو سجن معلوم ہندا تُسیں تبدیل ضرور ہو گئے او
شیخ رشید کو لانگ مارچ کی فکر چھوڑ کر ذرا پرانے سجنوں کی صدائیں سُننی چاہئیں، وہ تو آوازیں دے دے کر اپنے گلوں کا بھی ستیاناس کر بیٹھے ہیں۔
فرزندِ پنڈی عوامی مسلم لیگ کو لیکر اگر مارچ میں شامل ہوئے تو یقیناً اتنا اضافہ بھی مشکل سے ہو گا جتنا سمندر میں بارش کا قطرہ گرنے سے ہوتا ہے۔ اس کا مقصد قطعاً یہ نہیں کہ ”لونگ مارچ“ ”لانگ مارچ“ بن چکا ہے بلکہ عوامی مسلم لیگ ایک ستون پر کھڑی ہے جس کا نام شیخ رشید ہے کیونکہ اب فرزندِ پنڈی تو شکیل اعوان بن چکا ہے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
لانگ مارچ : لال جوڑا پہنے دلہن مجازی خدا سمیت ایک کلومیٹر تک پیدل چلنے پر مجبور
لانگ مارچی کتنے ظالم نکلے کم از کم لال جوڑے کو تو راستہ دے دیتے، پہلے دن ہی جو دلہن ایک کلومیٹر پیدل چلی کیا ساری زندگی اب وہ پیدل ہی چلتی رہے گی۔ دلہن تو لال جوڑا پہن کر دعائیں ہی دیتی ہے لیکن امامیہ کالونی کے قریب پیدل چل چل کر جب دلہنیا کے پاﺅں میں چھالے پڑ گئے تو دونوں میاں بیوی پولیس اورلونگ مارچیوں کو کوسنے لگے جبکہ وہ دن تو ایسا ہوتا ہے کہ انسان کہنے کے باوجود کچھ نہیں کہہ سکتا۔
اسی بنا پر شاعر نے کہا تھا ....
دل والا دکھڑا نئیں کسے نوں سُنائی دا
اپنیاں سوچاں وچ اپے ڈُب جائی دا
لیکن کل تو عجیب صورتحال سامنے آئی دلہا اور دلہن کے چہرے سے یوں لگ رہا تھا ....
دِلاں دیاں گلاں دِلاں وچ رہ گیّاں
اکھاں چھم چھم وسیاں
دلہا میاں رات گھر پہنچ کر یقینی طور پر دلہن کے پاﺅں دبا رہے ہوں گے اور دلہن صاحبہ میاں کے پاﺅں دبا رہی ہوں گی کیونکہ ایک کلومیٹر چل کر آنا کوئی خالہ جی کا گھر تھوڑا ہی ہے، ویسے ایک نوجوان شفیق کا یہ کہنا ہے اگر مجھے سو کلو میٹر بھی پیدل چل کر دلہنیا کو گھر تک لانا پڑتا تو لے آتا کیونکہ میرے جذبات کے سامنے لانگ مارچ یا لونگ مارچ حائل نہیں ہو سکتے، انسان کا جذبہ صادق ہونا چاہئے، ویسے انہیں ایک موقع مل چکا ہے ورنہ آزمانے میں کوئی حرج نہیں تھا۔
دلہن نے دلہا کی دلجوئی کیلئے سوہا جوڑا پہن رکھا تھا اگر انہیں رنگ میں مارچی بھنگ کا علم ہوتا تو یقینی طور پر وہ سوہے جوڑے کی بجائے کالا جوڑا پہننے کو ترجیح دیتے۔ دلہا نے تو پہلے ہی چارسُو شادی کا اعلان کر رکھا تھا اور ایک ہی بات گنگناتا ہو گا ....
جس دن میرا ویاہ ہووے گا
سب نوں چڑھیا چاہ ہووے گا
ماجھا جٹ تے شیدا تیلی
سارے سنگی سارے بیلی
ویہڑے لگیا میلہ ہووے گا
جس دن میرا ویاہ ہووے گا
براتیوں کو جب جی ٹی روڈ پر پیدل چلنا پڑا تو انکا چاہ یقیناً خود بخود ہی اُتر گیا ہو گا۔
علامہ صاحب تو بڑے مزے میں بلٹ پروف پجارو میں ”مارچ“ کر رہے ہیں، ذرا وہ بھی بلٹ پروف گاڑی سے نکل کر ”عوامی“ مارچ میں ”عوام“ کا ساتھ دیں تو پتا لگ جاﺅ گا۔ ہر کسی کو جان پیاری ہوتی ہے۔
اگر علامہ صاحب کو اپنی جان کی زیادہ فکر ہے تو پھر عوام کی بھی فکر کریں۔ اپنے پیٹ پر ہاتھ نہیں مارنا چاہئے۔ جو ابھی سے اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیر رہے ہیں ان سے کس چیز کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
یونان میں بدترین مالی بحران کے باعث ”پولیس کرائے پر دستیاب“ کے بورڈ آویزاں ہو گئے۔
55 ہزار اہلکاروں پر مشتمل محکمہ پولیس نے اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے شہریوں کو کرائے پر حفاظت کی سہولت فراہم کرنے کا اعلان کر دیا۔ 30 یورو فی گھنٹہ فی پولیس اہلکار حاصل کیا جا سکے گا۔ پولیس کی گاڑی 40 یورو جبکہ موٹر سائیکل 20 یورو فی گھنٹہ اضافی رقم دینا پڑے گی۔ بڑی تقریبات کیلئے پولیس کی گشتی کشتیاں 200 یورو جبکہ ہیلی کاپٹر 1500 یورو فی گھنٹہ پر دستیاب ہو گا۔
پاکستان میں ”کرائے کے قاتل“ ملتے ہیں، بالفرض اگر وزیر داخلہ رحمن ملک نے کبھی پولیس کرائے پر دینے کا اعلان کیا تو یقینی طور پر ہماری پولیس ”کرائے کے قاتل“ سے زیادہ معاوضہ لیکر ان سے مل جائے گی، یہ روزمرہ کا کام ہے ڈاکوﺅں کے ساتھ پولیس ملی ہوتی ہے۔ 15 پر کال کرنے کے باوجود دو دو گھنٹے دیر سے آنا ان کا معمول بن چکا ہے۔ ایک چور کو پولیس اہلکار دورانِ تفتیش کہہ رہا تھا یار تُو نے جس جس گھر چوری کی انکے گھروں میں تو آج بھی لالٹین جل رہی ہے لیکن تیرے گھر میں کھانے کیلئے کچھ بھی نہیں، اب توبہ کر لے ورنہ تیری بخشش نہیں ہو گی۔ طعنوں سے جل کر چور نے کہا، یار اگر تم پولیس والے بخشے گئے تو میں تم سے پہلے جنت میں جاﺅں گا کیونکہ مجھے اس راستے پر لانے والے یہی لوگ ہیں۔
پولیس کے بااثر افسران نے بھی مختلف روپوں میں اپنے اپنے چور اور ڈکیت رکھے ہوتے ہیں جو چوری کر کے مدعی کے تھانے میں آنے سے پہلے تھانے میں گھس کر پناہ لیتے ہیں، بس پولیس پھر بے گناہ شہریوں کو پکڑ کر انہیں مرغا بناتی ہے جس بنا پر نئے چور میدان میں آ جاتے ہیں۔ گذشتہ روز لاہور میں 26 لاکھ روپے لوٹے گئے، 5 گاڑیاں اور 12 موٹر سائیکل چھین لئے گئے لیکن سی سی پی او کے کان پر جُوں تک نہیں رینگی۔ ہماری پولیس کی تنخواہیں تو اس قدر زیادہ ہیں کہ یونان کا پورا ملک اس سے چل سکتا ہے۔ لیکن اسکے باوجود ہر موقع پر ”کتیا“ چوروں سے مل جاتی ہے اور عوام لٹتے رہتے ہیں۔ رانا ثنااللہ صوبائی وزیر داخلہ ہیں لیکن انکا کام بھی مونچھوں کو تاﺅ دینے کے علاوہ کوئی نہیں۔ آج تک لاہور کے کسی تھانے میں جا کر انہوں نے مونچھوں کو تاﺅ نہیں دیا بس پہلے راجہ ریاض کے پیچھے پڑے تھے آجکل علامہ طاہر القادری انہیں سونے نہیں دیتا۔
جناب کچھ تو خیال کریں اگر پولیس والے بندے کے پُتر نہیں بنتے تو پھر اس محکمے کو ختم کر دیں، یقین جانئے آدھے سے زیادہ جرائم اور چوریاں خود بخود ختم ہو جائیں۔ پہلے ہر تھانے پر اتحاد، ایمان، تنظیم کا بورڈ آویزاں ہوتا تھا لیکن اب ہر پُلسیے کے چہرے پر یہ لکھا ہوا ہے ....
حاکم ہے رشوت ستاں فکر گرفتاری نہ کر
کر رہائی کی کوئی آسان صورت چھوٹ جا
میں بتاﺅں تجھ کو تدبیر رہائی مجھ سے پوچھ
لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
منگل،2 ربیع الاوّل ‘ 1434ھ ‘15 جنوری2013 ئ
Jan 15, 2013