آج حکمران اورساری پاکستانی قوم دہشت گردی کی زد میں آچکے ہیں۔ پاکستان کا کوئی بھی کونہ اس وباء سے محفوظ نہ رہ سکا ہے۔ سارے ملک میں قتل و غارت کا بازار گرم رہتا ہے کوئی بھی شہری آرام کی نیند نہ سو سکتا ہے سانحہ پشاور نے تو ملک و قوم کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا قوم کے ان بچوں کا قتل عام دنیا کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے ’’بچے بچے‘‘ ہوتے ہیں اور وہ ہر لحاظ سے بے گناہ ہوتے ہیں اتنی بڑی تعداد میں پھول جیسے بچوں کی شہادت کے پیش نظر دنیا ہمیں چنگیز خان اور ہلاکو خان کے درجات دے گی۔ بچے تو کسی بھی قوم کا ایک بے حساب خزانہ ہوتے ہیں کسی کو کیا معلوم کہ ان میں کتنے بچے بڑے ہو کر قائداعظم محمد علی جناح کے سچے اور پکے پیروکار بن کر ملک و قوم کی خدمات سر انجام دیتے اور پاکستان کے دفاع میں ’’نشان حیدر‘‘ کے برابر کے کام کرتے، دنیا کے بڑے بڑے سائنسدان اور جغرافیہ دان بنتے، پاکستان کو دنیا کا ایک اول درجے کا ملک بنانے کے لئے منصوبہ سازی کا کام کرتے، ہم نے اپنے ہی ہاتھوں سے قومی خزانے کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ رو نے کا وقت اب ختم ہوگیا ہے۔ بچوں کی موت کا زخم تو ہمیشہ کے لئے پاکستانی قوم کے جسم پر موجود رہے گا اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس سانحہ عظیم کی وجوہات کی طرف بھی دھیان دیں۔
لوگ اس طرح کے خون بہانے کے کام کو ایک دن میں کرنے کو تیار نہ ہوتے ہیں۔ دہشت گردوں کی وسیع پیمانے پر ’’برین واشنگ‘‘ کی جاتی ہے ان کے دماغوں میں نقش کرنے کے لئے یہ بات بار بار دھرائی جاتی ہے کہ وہ اس طرح قتل و غارت کا کام کر کے موت کے بعد سیدھے جنت میں داخل ہوں گے اور یہ کہ اس قسم کے مکروہ کام کرنے سے ان کی زندگی کے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ ہمارے ہاں خوفناک حد تک جہالت عام ہے اس جہالت کی وجہ سے ان پڑھ لوگ جلدی دہشت گردوں کے ہاتھ آجاتے ہیں اس طرح کے لوگوں کو جنونی کا نام دیا جاتا ہے وہ اپنی زندگی کو ہتھیلی پر رکھ کر دوسرے بے گناہ لوگوں کا قتل عام کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ اس بات کو مزید آسان بنانے کے لئے ایک مثال پیش کرتا ہوں یہ بات اعلیٰ عدلیہ کے ایک جج کی زبانی سننے کو ملی ہے وہ ’’جج‘‘ ایک مسجد میں نماز با جماعت ادا کرنے کے لئے گئے نماز سے فارغ ہونے کے بعد مسجد کے ایک کونے میں ایک شخص بچوں کو کچھ پڑھا رہا تھا جج موصوف بھی اس محفل میں جا بیٹھے۔ پڑھانے والا شخص بچوں کو بار بار یہ سبق پڑھا رہا تھا کہ فلاں فلاں فرقہ کے لوگ کافر ہیں اور وہ سب کے سب واجب القتل ہیں ایسے لوگوں کا قاتل جنتی ہے پڑھانے والا شخص لگا تار جھوٹے مذہبی حوالے دیتا جا رہا تھا۔ مداخلت پر اس شخص سے پوچھا گیا کہ یہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ دوسرے فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگ کافر ہیں اور وہ قتل کے مستحق ہیں۔ یہ صرف ایک سچا واقعہ پاکستان کے موجودہ خوفناک حالات کی تصدیق کرتا ہے مجھے اس بات کا پختہ یقین ہے کہ وہ بچوں کو بوگس تعلیم دینے والا شخص کسی ہمارے دشمن ملک کا ایجنٹ تھا اس طرح کے ہزاروں لوگ ہمارے پیارے وطن کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں اور وہ لگا تار ملک و قوم دشمن کارروائیوں میں مصروف ہیں ایسے لوگ ہمارے گھروں کے اندر اپنے زہریلے ہتھیاروں سمیت موجود ہیں ان کو گرفتار کرنا کوئی آسان کام نہ ہوگا۔ ہمارے ہر قسم کے تعلیمی اداروں میں ایسے لوگ (جاسوس) وافر تعداد میں موجود ہیں۔ یہ میرا طالب علمی کا زمانہ تھا ایک تیز اور ترش زباں شخص سے ایک جگہ پر ملاقات ہوئی اور وہ لگا تار ہمارے قومی راہنمائوں پر تابر توڑ حملے کر رہا تھا خاص طور پر محترم لیاقت علی خان کی ذاتی زندگی پر اس شخص نے انتہائی گندی زبان استعمال کی۔ میری مسلسل بحث اور بات سے وہ شخص کسی حد تک رُک گیا یہ واقعہ پاکستان کی زندگی کے ابتدائی سالوں میں ہوا تھا۔ آج پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ شخص پاکستانی نہ تھا۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ سماعت فرمائیں میں اسلامیہ ہائی سکول لالہ موسیٰ کا طالب علم تھا وہاں ایک ایسا شخص بطور استاد آیا جس نے ’’بھری کلاس‘‘ میں ہماری اس وقت کی تمام سیاسی قیادت پر خوفناک حملہ کیا تھا وہ سبق ہمیں نہ پڑھاتا تھا بلکہ پاکستان اور اس کی قیادت کے خلاف باتیں کرتا تھا کچھ عرصہ بعد وہ شخص ہمارے سکول سے چلا گیا تھا۔
کیا مندرجہ بالا چند باتیں قابل غور نہ ہیں؟ بچوں کے دماغ ناپختہ ہوتے ہیں ان کے دماغوں میں ’’قوم اور ملک دشمن‘‘ مواد بلا خوف و خطر بھرا جا سکتا ہے میری ذاتی سوچ کے مطابق ہمارے دشمنوں نے ہمیں اندر سے کھوکھلا اور کمزور بنانے کا پروگرام بنا رکھا ہے۔
جس طرح معصوم لوگوں کی ’’برین واشنگ‘‘ کر کے ان کو دہشت گردی پر تیار کیا جاتاہے بالکل اسی پیمانے پر نیچے سے اوپر کے طبقات تک قوم کی برین واشنگ کرنا ہوگی۔ جاری دہشت گردی سے پاکستان کو اور خود ان دہشت گردوں اور ان کی اولادوں کو نا قابل تلافی نقصان ہو رہا ہے۔ میرے نزدیک با مقصد تعلیم سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے جدید میڈیا کی بے پناہ طاقت سے دہشت گردی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ بامقصد تعلیم بھی اس بیماری کے علاج کا موجب بن سکتی ہے۔ غریب اور محروم طبقات کے ساتھ معاشی انصاف کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ جہالت کو مٹا دو جب سب کے ساتھ برابر کا انصاف ہوگا تو دہشت گردی کی بنیادیں ہل کر رہ جائیں گی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کو عام کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہ گیا ہے دینی مدارس میں انگریزی، سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کو مذہبی تعلیم کے شانہ بشانہ پڑھانا ہی ہمارے مسائل کا واحد حل ہے۔
’’دہشت گردی دیمک کی ماند قوم کو چاٹ رہی ہے‘‘
Jan 15, 2015