ابو الاثر حفیظ جالندھری مرحوم

Jan 15, 2015

مجید غنی

وہ عند لیب گلشن معنی ہوں اے حفیظ

سوز سخن سے آگ لگا دوں بہار میں
فردوسی اسلام ابو الاثر حفیظ جالندھری کی شاعرانہ ہی نہیں بلکہ قومی حیثیت بھی محتاج تعارف نہیں اور ایک زمانہ اس سے آگاہ ہے۔ ملک و ملت کی جس قدر خدمت اپنی شاعری کے ذریعے حفیظ نے کی وہ اپنی جگہ ایک مثال ہے اور نوجوان لکھنے والوں کیلئے باعث تقلید ہے لیکن بد قسمتی سے ادب میں سیاست کرنیوالوں، حاسدوں اور ملک کے اساسی نظریے کے مخالفین کی حفیظ دشمنی کے سبب آج کا نوجوان حفیظ کی خدمات سے اس درجہ آشنا نہیں جیسے ہونا چاہیے۔حفیظ 14 جنوری 1900ءمیں پنجاب کے مشہور قصبے جالندھر میں پیدا ہوئے۔ نام محمد حفیظ قلمی نام حفیظ جالندھری رکھا لیکن انکے استاد محترم مولانا غلام قادر گرامی نے ابو الاثر کی کنیت عطا کی اور بہ اصرار نام کا جزو بنا دیا ۔ صرف ساتویں درجے تک تعلیم حاصل کی لیکن قدرت نے انہیں صاحب فکر اور صاحب عمل بنا کر بھیجا تھا۔ علاوہ ازیں آپکے گھر کا ماحول بھی مذہبی تھا۔ لہذا دین اسلام سے بچپن ہی سے سینہ منور ہو گیا اور اسی جوش قلب نے انہیں شاعر بنا دیا۔ چوتھے درجے میں تعلیم پا رہے تھے جب انہوں نے اپنا پہلا شعر لکھا:
محمد ﷺ کی کشتی میں ہوں گا سوار
تو لگ جائے گا میرا بیڑا بھی پار
حفیظ کی زندگی مسلسل جدوجہد سے عبارت ہے۔ آغاز میں ریلوے میں ملازمت اختیار کی بعد ازاں مختلف ادبی جرائد میں لکھتے رہے اور بہت نام کمایا۔ انتہائی قلیل آمدنی کے باوجود علم و ادب کی خدمت دل و جان سے کرتے رہے۔ 1942ءمیں آپ انٹی فاشسٹ پراپیگنڈہ کے شعبہ میں سانگ پبلسٹی ڈیپارٹمنٹ میں پہلے ڈائریکٹر اور پھر ڈائریکٹر جنرل بنے۔ 1946ءمیں قائداعظم کے حکم پر سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دیدیا۔ 1947ءمیں ڈائریکٹر جنرل مورال آرمڈ سروسز آف پاکستان مقرر ہوئے۔ 1955ءمیں فیلڈ ڈائریکٹر آف پبلسٹی ویلج ایڈ منسٹریشن بنے۔ 1961ءمیں ڈائریکٹر ادارہ تعمیر نو پاکستان مقرر ہوئے۔حفیظ نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مسلم لیگ کے جلسوں میں اپنی شاعری سے لوگوں کا لہو گرماتے رہے۔ آغاز قیام پاکستان میں حضرت قائداعظم کے حکم پر جنگ کشمیر میں خدمات انجام دیں اور اس میں زخمی بھی ہوئے۔ اسی طرح 1965ءمیں محاذ جنگ پر اگلے مورچوں پر جا کر مجاہدین کا لہو گرماتے رہے۔ اس لحاظ سے حفیظ ایک منفرد حیثیت کے مالک ہیں جو کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی۔ حفیظ کا فقید المثال کارنامہ تاریخ اسلام کو نظم کرنے کا ہے جو شاہنامہ اسلام کے نام سے مشہور ہے اور آج بھی مذہبی محفلوں میں بڑے اہتمام سے پڑھا جاتا ہے۔ حفیظ کی ایک اور وجہ عظمت مصنف قومی ترانہ پاکستان ہونا ہے۔ 120 ترانوں میں سے حفیظ کے ترانے کو قومی ترانہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ مقام افسوس ہے کہ وہ قومی ترانہ جو پاکستان کے طول و عرض اور بیرون ملک جہاں بھی پاکستان کا سفارتخانہ ہو وہاں بھی گونجتا ہے لیکن اسکے مصنف کو اس طرح یاد نہیں کیا جاتا جو اس کا حق ہے۔ حفیظ نے آزاد کشمیر کا قومی ترانہ نہ صرف لکھا بلکہ اسکی دھن بھی بنائی اور یوں آزاد کشمیر کے ترانے کا خالق ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ قومی ترانہ اور شاہنامہ اسلام کی تخلیق نے حفیظ کو ایک ایسے مقام کا حامل بنا دیا ہے جو کسی اور کو حاصل نہیں ہو سکتا۔حفیظ کی بے شمار ادبی تصانیف میں نغمہ زار، سوزوساز، تلخانہ شریں، بزم نہیں رزم، چراغ سحر نمایاں ہیں۔ نثر میں بھی آپکی درجنوں تصانیف ہیں جن میں نثرانے، چیونٹی نامہ بہت مشہور ہیں۔ اسکے علاوہ آپ نے بچوں کیلئے بھی سینکڑوں گیت اور نظمیں لکھیں۔ آپ کو بے شمار خطابات سے بھی نوازا گیا جس میں ملک الشعرا، فردوسی اسلام، نواب حسان الملک بہادر شامل ہیں۔ حکومت کی طرف سے ہلال امتیاز اور تمغہ حسن کارکردگی عطا کیا گیا۔حفیظ کی ذاتی زندگی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حفیظ نے اولادِ نرینہ کیلئے تین شادیاں کیں کیونکہ پہلی دونوں بیگمات سے حفیظ کے ہاں بیٹیوں کی پیدائش ہوئی۔ حفیظ کی تیسری بیگم سے بھی انکے ہاں بیٹی ہی پیدا ہوئی اور بیٹے کی خواہش پوری نہ ہوسکی اپنے بارے میں خود بھی کہا کرتے تھے کہ میں ”ابوالبنات“ ہوں۔ اپنے ایک نہایت عزیز شاگرد حمید کوثر کو اپنا بیٹا کہتے، بعد ازاں ایک عدالتی دستاویز کے ذریعے حمید کوثر کو اپنا متنبیٰ بنا لیا اور اپنی علمی میراث کا وارث قرار دیا۔ بقول ڈاکٹر اجمل نیازی ”حضرت حفیظ نے ان کو بیٹا بنایا اور اس رشتے کو نبھایا بھی مگر عقیدت کے جس مرتبے پر ان کیلئے حمید کوثر کھڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اس کے سامنے حضرت حفیظ کا یہ احساس بھی فخر کر سکتا ہے جتنا انہوں نے حفیظ کے بارے میں لکھا اور جذبے کی جس آخری منزل پر جا کے لکھا وہاں تک کوئی دوسرا کیسے پہنچ سکتا ہے۔ میں نے تو یہ دیکھا ہے کہ لوگ عقیدے میں تبدیلی کر لیتے ہیں مگر حمید کوثر نے حضرت حفیظ کے ساتھ اپنی عقیدت کو عقیدہ بنا لیا تھا“۔حفیظ کی قوم اور ملک کیلئے خدمات اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ حفیظ کو ان کے شایان شان مقام دیا جائے انکے کلام اور نثر پر تحقیقی کام کا اہتمام کیا جائے۔ حال ہی میں معروف ادیب اور دانشور پروفیسر ڈاکٹر خواجہ زکریا نے بہت محنت سے حفیظ کے کلام کو ”کلیات حفیظ“ کے نام سے یکجا کیا ہے اور یہ ایک بہت بڑی قومی خدمت ہے جس کیلئے ڈاکٹر صاحب پوری قوم کی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ حفیظ کے کلام کو نصاب میں زیادہ سے زیادہ شامل کرے۔ لاہور کی کسی بڑی سڑک اور لائبریری انکے نام سے منسوب کرنا اور ہر سال سرکاری سطح پر یوم حفیظ کا اہتمام حفیظ سے عقیدت رکھنے والے ہر شخص کا دلی مطالبہ ہے جو تا حال ارباب اختیار سے پذیرائی کا منتظر ہے۔

مزیدخبریں