بلاول بھٹو کی غیر حاضری۔۔۔۔۔۔ بختاور کو سامنے لانے کا فیصلہ

الطاف مجاہد
سندھ بدامنی کے عذاب سے گزر رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ اسے سیاسی مشکلات کا بھی سامنا ہے کراچی سے کشمور تک پھیلے صوبے میں لا تعداد مسائل ہیں جن کا حل سید قائم علی شاہ تلاش نہیں کر پا رہے ہیں کہا جاتا ہے کہ ان کے ہاتھ پیربندھے ہیں۔ ”ادا“ اور ”ادی“ ہی اصل حاکم ہے یہی بات صوبائی وزیر مخدوم جمیل الزماں سے منسوب ایک اخبار نے شائع کی ہے کہ مجھے تو چپڑاسی کے تبادلے کا بھی اختیار نہیں سارے معاملات ”ادی“ کے کنٹرول میں ہیں جب مسائل کا حل سلجھائی نہ دے تو لا قانونیت ، بے ضابطگیاں اور بدمعاملیاں بڑھ جاتی ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی زیرصدارت اجلاس میں صوبے کو دہشت گردی سے بچانے کے اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔ نئے دینی مدارس کے قیام کی اجازت نہ دینے، پولیس بھرتیوں کے عمل پر نظرثانی اور چھان بین کے بعد جرائم پیشہ اہلکاروں کی گرفتاری اور غیر قانونی اسلحے کے خلاف آپریشن کی منظوری دی گئی ہے وسطی زیریں اور بالائی سندھ میں قدر مشترک بدامنی ہے صوبے کے جیکب آباد، شکارپور، کندھکوٹ، لاڑکانہ اور قمر و دادو اضلاع میں کوئی رات پرامن نہیں گزرتی اغواءبرائے تاوان، ٹرکوں پر لوٹ مار اور قبائل تنازعات میں ہلاکتیں عام ہیں اسی ہفتے میرپور خاص میں بدنام ڈاکو چھٹو ناریجوسمیت 4 ڈاکو پولیس سے مقابلے میں مارے گئے لیکن 2 ایس ایچ او سمیت 5 پولیس اہلکار بھی شہید ہوئے صوبے میں اسمگل شدہ ایرانی تیل، عام فروخت ہو رہا ہے اور گنے کے آباد کار برہم ہیں کہ عدالتی حکم کے باوجود شوگر مل مالکان فی من قیمت 182 روپے دینے کی بجائے 155 روپے دینے پر مصر ہیں صوبے کی زرعی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔ اور ڈھائی درجن شوگر مل مالکان سے اپنی بات منوانے میں سید قائم علی شاہ کو دشواری پیش آ رہی ہے بظاہر جو نظر آ رہا ہے اگر وہ غلط نہیں تو پھر تصور کیا جا سکتا ہے کہ صوبے کے کم و بیش 29 اضلاع میں قیام امن کا مرحلہ دشوار کیوں نہ ہوگا؟
سابق صدر مملکت آصف زرداری نے تھر میں آر او پلانٹ کا سنگ بنیاد رکھا ہے جسے ایشیا کا سب سے بڑا سولر ہائبرڈ واٹر ڈی سیلی نیشن کمپلیکس قرار دیا جا رہا ہے اس تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ آصف زرداری کے ساتھ ان کی بڑی صاحبزادی بختاور بھٹو زرداری تھیں اس مرحلے پر بلاول بھٹو کی کمی شدت کے ساتھ محسوس کی گئی جو تھرکول پلانٹ پروجیکٹ اور وزیراعظم نوازشریف کے دورہ تھر پر خاصے فعال تھے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ صنم بھٹو ، فریال تالپور اور مخدوم امین فہیم کی کوششیں ناکام رہی ہیں اور بلاول بھٹو کے تحفظات دور نہیں ہو سکے ہیں لاہور کنونشن، شہید محترمہ کی برسی اور مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے یوم ولادت کی تقریب میں ان کی عدم موجودگی کے حوالے سے کئی سازشی تھیوریاں پھیلائی جا رہی ہیں اگر ان کا ٹیلی فونک خطاب بھی ہو جاتا تو ان تاثرات کی نفی ممکن تھی لیکن مکمل بلیک آﺅٹ نے ان تمام افواہوں کو حقیقت کا روپ دے دیا ہے جو ممکن ہے غلط بھی ہوں گو کہ مخدوم امین فہیم تردید کرتے ہیں کہ انہوں نے بلاول بھٹو کو منانے کی کوشش کی تھی وہ بتاتے ہیں کہ میں دبئی سے آ رہا ہوں اور لندن نہیں گیا تھا نہ ہی کوئی ٹاسک ملا تھا البتہ آصف زرداری سے بات چیت ہوتی رہتی ہے اور یہ بھی کہ ان سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار ان کے آخری موقف کو ”سیاسی مذاق“ گردانتے ہیں کہ صوبے میں ان کی پرویز مشرف سے ملاقات قائم علی شاہ کے خلاف عدم اعتماد کی خبروں اور ممکنہ بغاوت سے متعلق اتنا کچھ لکھا، پڑھا اور بولا جا چکا ہے کہ ان کی تردید سے بے معنی ہو گئی ہے ہاں وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے حلقہ احباب میں شامل علی حسن ہنگوجو کہ بحیثیت معاون خصوصی مقرری اور وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے وزیر کے اختیارات دئیے جانے ان کے صاحبزادے مخدوم جمیل کے معاملات بشمول قلمدان کا مسئلہ نمٹ جانے اور ضلع مٹیاری میں ڈی ایس پی ،ایس پی و دیگر عہدوں پر مخدوم فیملی کے پسندیدہ افراد کی تقرری کے بعد اب راوی چین لکھتا ہے۔
سندھ کے حوالے سے اےک اور چونکا دینے والی خبر یہ بھی ہے کہ صوبے میں تین فوجی عدالتوں کے قیام کے بعد جرائم پیشہ عناصر کیخلاف بڑے پیمانے پر آپریشن متوقع ہے اور92ءکی بڑی مچھلیوں والی 72ءرکنی فہرست کو پرانی فائلوں سے نکالا جا چکا ہے۔ اس میں شامل مرحومین کے نام حذف کر کے باقی ماندہ کم وپیش 44ءناموں کے ساتھ اےک اور لسٹ میں شامل سوا چار درجن نام بھی نئی فہرست کا حصہ بنائے گئے ہیں، نیز وزیر اعلی سندھ سید قائم علی شاہ اور صوبے کی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں سے رابطہ کر کے وفاقی حکومت کے اےک اہم ادارے کی جانب سے فہرست میں موجود تقریباً 8 درجن افراد کے خلاف گھیرا تنگ کیا جائے گا اس میں سیاستدان ہی نہیں پولیس اور افسر شاہی کے کچھ نام بھی شامل ہیں ویسے بھی سندھ میں”وڈیرے“ کامورے مجرموں، کی مثلت کے خلاف فیصلہ کن کارروائی وقت کا تقاضا ہے۔ صوبے میں افسر شاہی کیلئے” کامورے“ کی اصطلاح مروج ہے لیاری گینگ وار، اندرون صوبہ مجرموں کے ٹولے اور منشیات فروش سب کے سب”سرپرستی“ میں کام کر رہے ہیں یہ چھپر چھایا مہیا کرنے والے سرکاری افسر، سیاستدان اور بڑے زمیندار ہیں جنہیں دیہی سندھ میں پتھارے دار کہا جاتا ہے۔
کیا بد امنی میں گردن تک دھنسے سندھ کی کایا پلٹنے کی کوئی حکمت عملی پالیسی ساز حلقوں نے وضع کر لی ہے؟ اگر ایسا ہے تو انہیں سندھ کے ہر طبقہ زندگی سے پذیرائی ملے گی کہ وہ اسی کیفیت یا مصیبت سے نکلنا چاہتے ہیں اور وہ کسی نجات دہندہ کے منتظر ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...