بچوں پر تشدد کے اثرات ضروری اقدامات ناگزیر

Jan 15, 2015

سجادترین
sajjadtareen@gmail.com
ہمارے معا شر ے میں تشدد کی سوچ کو ختم کرنے کے لئے کچھ کیا جا رہا ہے؟
سانحہ پشاور ہوا تو پاکستان میں لیکن کینیڈا میں بچوں پر اس کے اثرات سے بچاو کے اقدامات کئے گئے اور خود پاکستان میں اس حوالے سے کچھ نہیں کیا کیا گیا
ڈراموں سے لے کر فلم تک اور فلموں سے لے کر خبروں تک میڈیا معاشرے کا تشدد دکھا بھی رہا ہے اور بار بار یہ سب کچھ دکھا کر تشدد بڑھا بھی رہا ہے۔
پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت اس عزم کا اظہار کر چکی ہے کہ ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک تمام شر پسند عناصر کے خلاف بلاامتیاز کارروائی جاری رہے گی وزارت داخلہ کے مطابق انٹیلی جنس ایجنسیوں نے چند ایسے مدرسوں کی نشاندہی کی ہے جن پر دہشت گرد تنظیموں سے روابط کا شبہ ہے اور اس کی تحقیق کے لیے تین نکاتی حکمت عملی ترتیب دے دی گئی ہے۔ ملک بھر میں روزانہ کی بنیاد پر سرچ آپریشن کا سلسلہ بھی جاری ہے جس میں اب تک مزید دو ہزار مشتبہ افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے ملک میں غیر قانونی موبائل فون سمز کی فروخت کو روکنے اور ان کے استعمال پر پابندی کے لیے قانون سازی کی جا رہی ہے اور فون کمپنیوں کو 90 دن کا وقت دیا گیا کہ وہ ایسی تمام سمز کی تصدیق کا عمل مکمل کر لیں بصورت دیگر ان کے خلاف بھی کارروائی ہو سکتی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی لائحہ عمل پر عملدرآمد شروع کر دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں تمام متعلقہ ادارے تیزی سے مصروف عمل ہیں۔وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کی زیر صدارت دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے قومی ادارے "نیکٹا" اور دیگر متعلقہ اداروں کے عہدیداروں کے اجلاس امیں اب تک ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا اب تک چار کروڑ سمز کی تصدیق کی جاچکی ہے جب کہ دیگر 10 کروڑ کی تصدیق کے لیے موبائل فون کمپنیوں کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت 90 روز میں یہ عمل مکمل کیا جائے گا۔ملک میں دہشت گردی کے لیے ایک عرصے سے موبائل فون کو ڈیوائس یعنی آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے اور حکام اسے ایک انتہائی حساس معاملہ قرار دیتے آرہے ہیں۔16 دسمبر کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے ملکی تاریخ کے بدترین دہشت گردانہ حملے کے بعد تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں اور پاکستانی فوج کی مشاورت سے حکومت نے ایک متفقہ لائحہ عمل ترتیب دیا تھا جس کا مقصد دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور فوری اقدامات کرنا ہے۔پشاور اسکول حملے میں 133 بچوں سمیت 149 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کے اندراج کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا اور صرف پنجاب میں حالیہ دنوں کے دوران 7000 پناہ گزینوں کو رجسٹر کیا گیا۔پاکستان میں تقریبا تیس لاکھ افغان پناہ گزین گزشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصے سے مقیم ہیں جن میں سے تقریبا 17 لاکھ رجسٹرڈ ہیں جب کہ باقی بغیر قانونی دستاویزات کے یہاں موجود ہیں۔اکثر جرائم میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے کے بھی شواہد ملتے رہے ہیں اور اسی بنا پر ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جارہی ہے۔سرکاری بیان کے مطابق نفرت انگیز مواد اور لاڈ اسپیکر کے غلط استعمال پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اس ضمن میں 176 شکایات رجسٹر کی گئیں اور لاڈ اسپیکر کے غلط استعمال پر 115 افراد کو حراست میں بھی لیا گیا۔علاوہ ازیں شدت پسند کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے حامیوں کی نشاندہی بھی کی جا رہی ہے اور حکام کے بقول صرف پنجاب میں ایسے 95 افراد کی نشاندہی ہونے کے بعد ان کی گرفتاری کے لیے سرگرمیاں جاری ہیں۔اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں سکیورٹی اور حفاظتی انتظامات سے متعلق حکام کے بقول متعدد اقدامات کیے گئے ہیں جن میں عمارتوں کی بیرونی دیواروں کو بلند کرنے اور مسلح محافظ تعینات کرنے کے علاوہ ایسے آلات اور مواصلاتی نظام وضع کیا گیا ہے جس سے کسی بھی ہنگامی حالت میں اسکول سے فوری طور پر اس کی اطلاع قریبی پولیس اسٹیشن تک پہنچ جائے گی۔ اب بھی اسکولوں کی حفاظت کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں تعلیمی اداروں کو اپنے طور پر بھی قابل ذکر اقدامات کرنا ہوں گے سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی تو شروع کر رکھی ہے لیکن اسے مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے۔" پہلا کام تو یہی ہے کہ آپ ان (دہشت گردوں) کو حملے کرنے کے لیے نکلنے نہ دیں دوسرا یہ کہ اپنے ردعمل میں کارروائی کرنے والی فورس تیار کریں اور جگہ جگہ یہ فورس لگائیں اور جب بھی کوئی ایسا حادثہ ہو تو فوری کارروائی کرے اور تیسرا سکولوں کو کوشش کرنی چاہیئے کہ کچھ نہ کچھ کریں وہ کر بھی سکتے ہیں اور ان کو کرنا بھی چاہیئے د ہشت گردی کے جرائم میں ملوث افراد کے خلاف مقدمات کو تیزی سے نمٹانا اور شرپسند عناصر کی سرکوبی کے لیے موثر اقدامات کرنا ہے۔ترمیم شدہ آرمی ایکٹ کے تحت پاکستان کے خلاف جنگ کرنے، فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ کرنے، سول و فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے، دھماکا خیز مواد رکھنے یا کہیں منتقل کرنے اور مذہب کے نام پر ہتھیار اٹھانے والوں کے خلاف مقدمہ چلا کر سزائیں سنائی جا سکیں گیاا غوا برائے تاوان اور غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے مالی معاونت فراہم کرنے والوں کے خلاف مقدمات کی فوری سماعت کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام ضروری تھا ہمارے معا شر ے میں تشدد کی سوچ کو ختم کرنے کے لئے کچھ کیا جا رہا ہے؟ کیا اس حوالے سے ماہرین کی خدمات خاصل کی جا رہی ہیں؟ کیا ملک میں تشدد کی وجوہات جاننے اور اس کے خاتمے کے لئے میڈیا کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں؟ پتا نہیں۔ کیونکہ، میڈیا پر تو خود یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ڈراموں سے لے کر فلم تک اور فلموں سے لے کر خبروں تک میڈیا معاشرے کا تشدد دکھا بھی رہا ہے اور بار بار یہ سب کچھ دکھا کر تشدد بڑھا بھی رہا ہے۔پچھلے دنوں دہشت گردی کے ایک واقعے میں کینیڈا میں جب فائرنگ کرکے ایک فوجی کو قتل کر دیا گیا، تو اسکولوں نے بچوں کے والدین کو تحریری ہدایات پہنچائیں کہ اس خبر کی وجہ سے ان کے بچوں کے ذہنوں پر پرتشدد اثرات پڑ سکتے ہیں۔ تو اس سے بچنے کے لئے کیا جائے، یہاں تک کہ سانحہ پشاور ہوا تو پاکستان میں لیکن کینیڈا میں بچوں پر اس کے اثرات سے بچاو کے اقدامات کئے گئے اور خود پاکستان میں اس حوالے سے کیا گیا۔ پتا نہیں۔ لیکن، اتنا ضرور پتا ہے کہ ماہرین کے مطابق، معاشرے کو تباہی سے بچانے کے لئے، معاشرے سے تشدد کا خاتمہ ناگزیر ہے۔

مزیدخبریں