دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے پاکستان کے موسم اور ماحول میں بھی ریکارڈ تبدیلی آ رہی ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان دنیا کے ان بارہ ممالک میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ موسمی تبدیلیوں کے اثرات ہوں گے۔ یہ صورت حال ہر اعتبار سے قابل تشویش ہے۔ ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق جن پانچ ممالک میں 2025ءتک خشک سالی کا خطرہ ہے، پاکستان ان میں شامل ہے۔دنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلے ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم پاکستان کے شمال میں واقع ہیں۔ قطب شمالی اور قطب جنوبی کے بعد دنیا میں برف کے سب سے بڑے ذخائر انہی تین پہاڑی سلسلوں پر ہیں۔ ان پہاڑی سلسلوں سے نکلنے والا پانی ملک کے وسیع رقبے کو سیراب کرتا ہے۔ بیس برس پہلے برف ان پہاڑوں کے وسیع حصے کو ڈھانپے ہوئے تھی اور اب کئی حصے برف سے بالکل خالی ہو چکے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ دو دہائیوں میں (2010 سے 2030) کے دوران موسم میں حیران کن اور ڈرامائی تبدیلیاں واقع ہوں گی۔ایشیائی ترقیاتی بینک کے اندازوں کے مطابق2050ءتک بنگلہ دیش اور پاکستان میں لاکھوں انسان ایسے مقامات پر زندگی بسر کر رہے ہوں گے جو منفی ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے نہایت خطرناک ہوں گے۔ پاکستانی ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ حالیہ سالوں میں پاکستان کے ساحلی علاقوں کو ترک کر کے دیگر مقامات کی طرف نقل مکانی کرنے والے باشندوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کی وجہ سمندری پانی کی سطح میں اضافہ اور نمکیں و آلودہ پانی ہے۔ ماہرین اس نقل مکانی کی مہم کو ابھی محض آغاز قرار دے رہے ہیں۔ ماہرین اور تحفظِ ماحولیات کیلئے سرگرم عناصر نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس صورتحال کا سختی سے نوٹس لے۔
پاکستان کو ابتداءہی سے پانی کے مسائل کا سامنا رہا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد مشرقی اور مغربی دریاﺅں (سندھ، چناب، جہلم، راوی اور ستلج) کے پانی کی تقسیم کیلئے بھارت اور پاکستان کے درمیان سندھ طاس معاہدہ طے پایا۔ سندھ طاس معاہدے پر معمول کے تنازعات کو ایک طرف رکھ کر دیکھا جائے، تو اس معاہدے نے پاکستان اور ہندوستان کو عموماً فائدہ ہی پہنچایا ہے۔ اس کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے، کہ ہندوستان اور پاکستان نے 1960 سے لے کر اب تک گو کئی روایتی و غیر روایتی جنگیں لڑی ہیں مگر خوش قسمتی سے پانی پر اب تک کوئی جنگ نہیں لڑی گئی۔
معاہدے نے تنازعات کے مو¿ثر حل، مذاکرات، اور معلومات کے تبادلے کیلئے تمام ضروری ادارے قائم کرنے میں مدد دی ہے۔ جب کمشنرز مسئلے کے حل میں ناکام ہو جائیں، تو معاہدے کی رو سے مسئلہ اعلیٰ اسٹیبلشمنٹ کی جانب چلا جاتا ہے۔ جب مسئلے کے باہمی و دو طرفہ حل کے تمام راستے ختم ہو جائیں، تو معاہدہ اس بات کی بھی اجازت دیتا ہے، کہ ایک غیر جانبدار ماہر کی خدمات حاصل کی جائیں، یا پھر ثالثی عدالت سے رجوع کر لیا جائے۔
کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کے معاملے پر پاکستان کی جانب سے ثالثی عدالت میں جو ”ماہرین“ پیش ہوئے، وہ اپنا کیس مضبوط بنانے کیلئے کسی قابل ذکر سول انجینئر کی خدمات حاصل نہیں کر سکے، اور پھر غیر ملکیوں، اور نان انجینیئر ماہرین پر اس کام کیلئے اعتماد کیا گیا۔ پاکستان کی جانب سے پیش ہونے والے ماہرین جس طرح Models" "Regression کی تفصیلات میں الجھاو¿ کا شکار تھے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اس معاملے پر معلومات کتنی سطحی تھیں، کیوںکہ پانی کے بہاو¿ کے Models" "Statistical بناتے وقت موسمیاتی وجوہات کو مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ دریائے جہلم کے بیسن میں دریا کے بہاﺅ پر بنایا جا رہا ہے۔ یہ ڈیم بھارتی مقبوضہ کشمیر کے علاقے "بندی پور" سے 5 کلو میٹر کے فاصلے پر تعمیر کیا جا رہا ہے۔ یہ جگہ آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد سے صرف 160 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس منصوبے کا مقصد کشن گنگا دریائے کے پانی کا رخ تبدیل کر کے بجلی کی پیداوار کو بڑھانا اور علاقے کو آب پاشی کیلئے پانی فراہم کرنا ہے۔ اس ڈیم سے بھارت نے بھی 330 میگا واٹ بجلی پیدا کرنی ہے۔اس منصوبے پر کام سن 2007 میں شروع ہوا جو 2016 کے آخر تک مکمل ہونا تھا۔ پاکستانی احتجاج کے بعد جب یہ معاملہ ”ہیگ©“ میں قائم بین الاقوامی مصالحتی عدالت میں گیا تو 2011 میں اس پر کام روک دیا گیا۔ پاکستان کا موقف تھا کہ بھارت میں جس دریا کو کشن گنگا کہا جاتا ہے وہ دریا جب پاکستان علاقے میں داخل ہوتا ہے تو اسے© ”نیلم، جہلم“ کہا جاتا ہے اور کشن گنگا پر ڈیم بننے سے پاکستان میں پانی کی کمی واقع ہو گی جو کہ سندھ طاس منصوبے کی خلاف ورزی ہے۔ فروری 2013 میں بین الاقوامی مصالحتی عدالت نے بھارت کو اجازت دے دی کہ وہ محدود مقدار میں کشن گنگا کے پانی کو بجلی پیدا کرنے کی حد تک استعمال کر سکتا ہے۔ عدالت نے فیصلے میں بھارت کو پابند کیا ہے کہ وہ اس منصوبے کے ڈیزائن کو اس طرح ترتیب دے کہ ایک خاص مقدار تک پانی کا بہاﺅ پاکستان کی طرف جاری رہے۔
پاکستان میں پانی کے معاملے پر داخلی مسائل کا ذمہ دار ہمیشہ ہندوستان کو ٹھرایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان صوبوں کے درمیان پانی کے تنازعات کو حل کرنے میں تاخیر کر رہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب صوبے پانی اور توانائی کے معاملے پر اپنے حقوق کا تحفظ کرنے میں مگن ہیں، دوسری طرف قوم اپنے وسائل کھو رہی ہے، اور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا رہی ہے۔ وقت کاتقاضہ ہے کہ پاکستان کو خشک سالی سے بچانے کیلئے آبی وسائل کے معاملے پر سنجیدگی سے حکمت عملی اختیار کی جائے ورنہ آئندہ پانچ سال تک ہمیں گیس اور بجلی سے زیادہ پانی کا مسئلہ درپیش ہو گا۔
”آبی وسائل میں کمی اورپاکستان کو درپیش خطرات“
Jan 15, 2017