تاریخ ’’آل انڈیامسلم لیگ‘‘۔ سرسید سے قائد اعظم تک

Jan 15, 2018

نوازرضا۔۔۔ںوٹ بک

30 دسمبر1906ء آل انڈیا مسلم لیگ کا جنم دن ہے،لیکن اب کی بار یہ دن خاموشی سے گزر گیا کسی مسلم لیگی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اگر سر سید احمد خان نہ ہوتے محمڈن اینگلواورینٹل کالج قائم ہوتااور نہ اورینٹل مسلم ایجوکیشنل کانفرنس ہوتی‘ جس کی کوکھ سے مسلم لیگ نے جنم لیا اگر آل انڈیا مسلم لیگ نہ ہوتی تو پاکستان کا قیام ایک خواب بن کر رہ جاتا تحریک پاکستان نہ ہوتی محمد علی جناح قائداعظم نہ ہوتے۔ قائداعظم نہ ہوتے تو پاکستان کا قیام عمل میں نہ آتا۔ مسلم لیگ کے نام پر کئی جماعتیں قائم ہیں جن میں ایک حکمران جماعت ہے جس کی وفاق اور پنجاب میں حکومت ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ ق بھی قائم ہے،شیخ رشید احمد نے عوامی مسلم لیگ کے نام کی جماعت قائم کر رکھی ہے پیر صاحب پگارا کی جماعت کا نام فنکشنل مسلم لیگ ہے۔جب تک مشاہد حسین سید مسلم لیگ ق کے سیکرٹری جنرل رہے مسلم لیگ (ق)ہر سال پابندی سے یوم تاسیس مناتی تھی ان کے جانے کے بعد مسلم لیگ ق یوم تاسیس منانا ہی بھول گئی۔مسلم لیگ (ن) ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہونے کے علاوہ مسلم لیگ کا سب سے بڑا دھڑا ہے لیکن جب سے مسلم لیگ (ن)کی قیادت زیر عتاب آئی ہے اسے مسلم لیگ کا یوم تاسیس منانے کا ہوش ہی نہیں۔ آزاد بن حیدر کا شمار ان مسلم لیگی رہنمائوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے پاکستان بنتے اور ٹوٹتے دیکھا ہے۔ وہ عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں انہیں آرام کرنا چاہئے لیکن وہ اس وقت بھی مسلم لیگ کے جواں سال کارکنوں کی طرح کام کرتے ہیں۔ اپنی عمر کی پچاسی بہاریں دیکھنے کے بعد بھی ان کا جذبہ اسی طرح جوان ہے جس طرح تحریک پاکستان میں تھا،آزاد بن حیدر نے 1152صفحات پر مشتمل اپنی کتاب میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سرسید سے قائداعظم تک کے ادوا ر کااحاطہ کیا ہے۔آزاد بن حیدرنے تعلیم، قانون،صحافت،سیاست اور سماجی خدمت کے شعبوں میں بڑانام کمایا ہے۔وہ ایک سچے اور کھرے مسلم لیگی ہیں جن کا اوڑھنا، بچھونا مسلم لیگ ہے انہوں نے اسلام، علامہ اقبال، قائداعظم محمد علی جناح،نظریہ پاکستان کو اپنی ذات کا حصہ بنایا ہے،آزاد بن حیدر کا تعلق جس نسل سے ہے اس کاپاکستان میں وجود ختم ہوتا جارہا ہے اس لحاظ سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ان کی آل انڈیا مسلم لیگ کے بارے میں تصنیف ایک مصدقہ دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔تحریک پاکستان کے بارے میں ان کے نکتہ نظر سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے لیکن ان کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کتاب تحریک پاکستان اور استحکام پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے کی ایک ایسی تحقیقاتی کاوش ہے جو آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے تحریک پاکستان کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہو گی۔ میں نے آزاد بن حیدر کی گونج دار آواز پاکستان مسلم لیگ ق کے پلیٹ فارم پر سنی ہے۔یہ جماعت جنرل پرویز مشرف کی سیاسی ضروریات پوری کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی۔ممکن ہے کہ دیگر مسلم لیگیوں کی طرح آزاد بن حیدر نے بھی نواز شریف کو جو کہ اس وقت ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے قائد ہیں ، مسلم لیگی ہی تسلیم نہ کیا ہو اس لیے انہوںنے چوہدری برادران کے کیمپ میں ہی اپنے آپ کو شامل کیا ہو۔آزاد بن حیدر 1932میں علامہ محمد اقبال کے شہر سیالکوٹ میں پید اہوئے وہ پیدائشی مسلم لیگی ہیں،انہوں نے 1946ء میں حمید نظامی اور عبدالستار خان نیازی کی قیادت میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی رکنیت حاصل کی۔ انہوں نے قیام پاکستان کے بعد کراچی کو اپنا مسکن بنا لیا ۔آزاد بن حیدر کا شمار ان مسلم لیگی رہنمائوں میں ہوتا ہے جنہوں نے قائداعظم محمد علی جناح،لیاقت علی خان،سردار عبدالرب نشتراور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے جنازوں میں شرکت کی۔ انہوں نے کچھ عرصہ مولانا حافظ عبدالحامد بدایونی کی تنظیم جمعیت علماء پاکستان میں شمولیت اختیار کر لی تھی جو مسلم لیگ کا علما ء ونگ تھا۔ انہوں نے اس تنظیم میں 1955ء سے 1977ء تک سیکرٹری اطلاعات کے طور پر کام کیا ہے۔ انہیں اس بات کا بھی اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے 1964میں مادر ملت فاطمہ جناح کے الیکشن ایجنٹ حسن اے شیخ، شیخ مجیب الرحمان اور شیخ منظورالحق کے ہمراہ ان کے کاغذات نامزدگی جمع کرائے اور محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا۔ آزاد بن حیدر نے اپنی ساٹھ سالہ سیاسی زندگی میں سیاسی ایڈونچر بھی کئے ہیں،انہوں نے جناح مسلم لیگ بنائی،جب ہم خیال گروپ نے پاکستان مسلم لیگ (قائداعظم) کے نام سے جماعت بنائی تو انہوں نے 6 جولائی 2002 ء کوجناح مسلم لیگ کو اس میں ضم کر دیا۔ انہوں نے علامہ اقبال ونگ بھی قائم کیا۔

یہ کتاب ہندوستان میں مسلمانوں کے عروج وزوال کی ایک داستان ہے۔ اس کتاب میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور مسلمان کے عنوان سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی ریشہ دوانیوں کا ذکر بھی ہے انہوں نے تحریک پاکستان کے مختلف ادوار کا جائزہ پیش کیا ہے، آزاد بن حیدر کی کتاب میں سر سید احمد خان کو زبردست انداز میں خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ سرآغا خان سوئم مستقل صدر آل انڈیا مسلم لیگ (1906 تا 1911) کے دور کا بھی تفصیلی ذکر ہے۔ پھر اس کتاب میں نواب وقارالملک، جو مسلم لیگ کے تاسیسی اجلاس کے صدر تھے، کا بھی ذکر ہے۔ سر آدم جی پیر بھائی جنہوںنے 29، 30 دسمبر 1907کوآل انڈیا مسلم لیگ کے کراچی میں ہونے والے پہلے سالانہ اجلاس کی صدارت کی کا ذکر موجود ہے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا دوسرا سالانہ اجلاس 30 اور 31 دسمبر 1908کو امرتسر میں ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت کا اعزاز سرسید علی امام کو حاصل ہوا،سر غلام محمد علی بہادر، شہزادہ ارکاٹ نے 29،30 جنوری 1910کو دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تیسرے سالانہ اجلاس کی صدارت کی۔آل انڈیا مسلم لیگ کا چوتھا سالانہ اجلاس 28 تا 30دسمبر1911 ناگپور میں ہوا،نواب سلیم اللہ کا ذکر کئے بغیر آل انڈیا مسلم لیگ کی تاریخ نامکمل رہتی ہے انہوں نے 3 اور 4مارچ 1912کو کلکتہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کی۔ چھٹا سالانہ اجلاس 22 اور 23 مارچ 1913کو میاں محمد شفیع کی صدارت میں ہوا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا ساتواں سالانہ اجلاس 30اور 31دسمبر کو آگرہ میں سرابراہیم کی صدارت میں ہوا اور آٹھواں اجلاس مظہرالحق کی زیر صدارت میں ممبئی میں 30 دسمبر 1915کو منعقد ہوا۔ 30، 31دسمبر کو لکھنئو میں آل انڈیا مسلم لیگ کا نواں اجلاس ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت کا اعزاز محمد علی جناح کوحاصل ہوا جن کو بعدازاں قائداعظم کا خطاب دے دیا گیا۔ یہی وہ اجلاس ہے جو تحریک پاکستان کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ 3دسمبر 1917ء تایکم جنوری1918ء کو کلکتہ میں ہونے والے دسویں سالانہ اجلاس کی صدارت مہاراجہ محمد علی خان آف محمود آباد نے کی، مولانا محمد علی جوہر اس وقت جیل میں تھے ان کی تصویر کرسی صدارت پر رکھی گئی۔ گیارہواں اجلاس 30، 31 دسمبر 1918بمقام دہلی میں صدارت ابو قاسم فضل حق نے کی، بارہویں اجلاس کی صدارت حکیم محمد اجمل، تیرویںاجلاس کی صدار ت ڈاکٹر ظفر احمد انصاری، چودھویں اجلاس کی صدارت مو لاناحسرت موہانی، پندرھویں اجلاس کی صدارت غلام محمد برگڑھی نے کی۔ چوبیس اور پچیس مئی1924کو پندرہواں ملتوی شدہ اجلاس قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں لاہور میں ہوا۔ سولہواں اجلاس 30اور 31 دسمبر 1925کو سید رضا علی، سترہواں اجلاس علی گڑھ میں سر عبدالرحیم، اٹھارہواں اجلاس 29 تا 31 دسمبر 1926کو دہلی میںشیخ عبدالقادر، انیسواں اجلاس کلکتہ میںتیس دسمبر 1927کو ہوا اس وقت آل انڈیامسلم لیگ دو حصوں میں منقسم ہو چکی تھی۔ ایک جناح گروپ اور دوسرا شفیع گروپ بن گیا۔ جناح گروپ کی صدارت مولوی محمد یعقوب اور شفیع گروپ کی صدارت سر محمد شفیع نے کی۔ پھر آل انڈیا مسلم لیگ متحد ہو گئی اور بیسواں اجلاس مہاراجہ محمد علی آف محمود آباد کی صدارت میں ہوا۔ اس دوران قائداعظم کے چودہ نکات منظر عام پر آئے۔ 1930میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الہٰ آباد میں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے جو تاریخی خطبہ دیا وہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ہمیشہ مشعل راہ رہے گا اور وہی آزادی کی تحریک کا سنگ میل ثابت ہوا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا اکیسواں سالانہ اجلاس 29تا 30 دسمبرالہٰ آباد میں ہوا۔
علامہ اقبال کی شاعری کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتاہے پہلا دور 1905 تک کا ہے جس میں وطن پرستی کی جھلک نظر آتی ہے دوسرا دور1905 سے 1908تک ہے جس میں زندگی کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں ان کی رائے تبدیل ہو رہی تھی۔ ان کی شاعری کا تیسرا دور 1908میں ہندوستان واپس آنے کے بعد شروع ہوا۔ علامہ اقبال نے نظری اور فکری حوالوں کے ساتھ ساتھ عملی سیاست میں بھی حصہ لیا اور قائداعظم محمد علی جناح کو تحریک پاکستان کی قیادت کرنے کے لیے آمادہ کیا۔آل انڈیا مسلم لیگ کا بائیسواں اجلاس 26تا 27 دسمبر 1931کو ہوا،اجلاس کی صدارت چوہدری ظفراللہ خان اور مسٹر عبدالعزیز نے کی۔ آزاد بن حیدر نے اپنی کتاب میں قائداعظم محمد علی جناح کی ایک نایاب تصویر بھی شائع کی ہے جب وہ ترکی ٹوپی پہن کر لاہور میں مسجد شہید گنج آئے ان کی آمد کا مقصد مسجد شہید گنج کا معاملہ تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا پچیسواں اجلاس 15 تا 18 اکتوبر 1937 لکھنئو میں ہوا، چھبیسواں اجلاس بھی قائد اعظم کی صدارت میں پٹنہ میں ہوا۔ ستائیسواں اجلاس 22تا 24 مارچ 1940ء کو قائد اعظم کی صدارت میں منٹو پارک لاہور میں ہوا جس میں قراداد لاہور منظور ہوئی جسے بعد میں قرارداد پاکستا ن کا نام دے دیا گیا۔ یہ اجلاس تحریک پاکستان کو مہمیز کرنے کا باعث بنا مدراس میں 12تا 15اپریل 1941کو ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے اٹھائیسویں، 3تا6اپریل 1942 کو الہٰ آباد میں انتیسویں اور دہلی میں ہونے والے تیسویں اجلاس اورکراچی میں ہونے والے اکتیسویں اجلاس کی صدارت قائداعظم محمد علی جناح نے کی۔ بتیسواں اجلاس 7تا 9اپریل 1946کو قائداعظم کی زیرصدارت ہوا یہ تحریک پاکستان کے عروج کا وقت تھا، 3 جون1947کو قائداعظم نے مسلمانان ہند سے خطاب کیا اور قوم کو قیام پاکستان کی خوشخبری سنائی۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا آخری اجلاس 14 دسمبر 1947کو کراچی میں ہوا جس کی صدارت بھی قائداعظم نے کی جس کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ پاکستان مسلم لیگ بن گئی۔ اس کتاب کا ایک اجمالی جائزہ لیا جائے تو آل انڈیا مسلم لیگ کے 7سے زائداجلاس قائد اعظم کی زیر صدارت ہوئے اورمسلم لیگ کے بیشتر اجلاس ان علاقوں میں منعقد ہوئے جو بعدازاں پاکستان میں شامل نہیں ہوئے۔ مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرنے والے ہر کارکن کے لئے مسلم لیگ کی تاریخ پڑھنا لازمی قرار دیا جائے اور نوجوان نسل کو تحریک پاکستان سے آگاہ کرنے لئے اس کتاب کو نصاب میں شامل کیا جانا چاہئے۔
٭٭٭٭٭

مزیدخبریں