کوٹ مومن میں مردِ مومن کا جلسہ

ایسی سیاست کا بیڑا غرق ہونا ہی تھاجس میں عمران خان شیخ رشید کے مشوروں پر چلتے رہے۔ خود تحریک انصاف کے صف اول کا کوئی رہنما عمران خان کی اس عجیب عادت پر خوش نہیں رہا۔ نہ جہانگیرترین نہ شاہ محمود ۔روزمرہ کے حوالے سے سیدھی سی بات ہے کہ آپ چائے بنانے کے لئے آگ جلاتے ہیں مگراسے بے قابو نہیں ہوتے دیتے۔ شیخ رشید نے بڑی ہوشیاری سے آگ کے شعلے بھڑکا دئیے۔ آگ تیزہوئی توجہانگیرترین کا حشرسامنے ہے ۔ شاہ محمود قریشی کے بھائی نے ان کا جوحشرکیا وہ ٹی وی پر دنیا نے دیکھا۔اب شاید برادرمحترم فروغ نسیم ہی کام آئیں جو ایم کیوایم کے ہیں اور غداری کیس میں پرویزمشرف کے وکیل ہیں ورنہ تواس مقدمے کے فیصلے کے بعد شیخ رشید کے ارمانوں پر اوس پڑگئی ہے۔جناب شیخ رشید اپنی نام نہاد سیاسی جماعت کے اکلوتے ایم این اے اور اکلوتے لیڈرہیں۔ عمران خان نے روحانی دوست کے مشورے پر شیخ رشید کو اور تنہا کردیا توکیا ہوگا۔ ابھی عمران خان نے ایک بھارتی فلم کا مشہور ڈائیلاگ دہرایا ہے۔ I am not terrorist پھر شاید وہ ایک اور فلم کا یہ مشہور جملہ دہرانے پر مجبور ہوجائیں ۔ تیرا کیا ہوگا؟ وہ لفظ ہم شیخ رشید صاحب کے احترام میں لکھنے سے گریزکررہے ہیں۔

عمران خان کی شادی ان کی سیاست کی طرح معمہ بنتی جارہی ہے۔ پرویز خٹک وزیراعلیٰٰ کے پی کے نے فتویٰ دیا کہ عمران نے شادی کی توکیا ہوا۔ اعلان کرنا ضروری نہیں۔ پی ٹی آْئی کے آفیشل بیان میں کیا گیا ہے کہ عمران نے محترمہ کوپروپوز کیا ہے۔ محترمہ نے مشورے کے بعد جواب دینے کا وعدہ فرمایا ہے ۔ سابقہ شوہر نے فرمایا کہ متقی خاتون ہیں غضب خدا کا ایسی نیک اور متقی خاتون کو طلاق دینے کا کیا جواز تھا کیا ایسا شخص بدنصیب نہیں ہے اور کیا لائق اعتبارہے۔ سیاست دانوں کی نجی زندگی پبلک پراپرٹی ہے۔ چھپانے کا مقصد کیا ہے ۔ یہ ہیں ہمارے مستقبل کے وزیراعظم۔ 66برس کی عمرمیں شادی ۔ وہ بھی معمہ ۔؟طلاق دینے والے شوہر نے نہ صرف خود پر ظلم کیا ہے خاتون کے ساتھ زیادتی کی ہے بلکہ یہ بدنصیب شخص اپنے بچوں کو بھی نفسیاتی مریض بنانے کا ذمہ دار ہے۔سب سے سخت بیان شد پنجاب رانا ثناء اللہ کا ہے۔ دو برس پہلے دعا لینے گئے تھے۔ گھر اُجاڑدیا۔ انہوں نے فرمایا کہ پنجاب غیرت مند لوگوں کا خطہ ہے ہماری کچھ مشرقی روایات ہیں اخلاقیات ہیں ذرا دیکھیں کیسا صادق اور امین ہے۔بظاہرشادی عمران خان کی مجبوری بھی ہے۔ جولوگ کھلے دروازے یا چور دروازے سے عمران خان کولانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مشورہ دیا ہوگا کہ شادی توکرلو۔ چھڑے آدمی کو وزارت عظمیٰ کے لئے ویسے ہی مسترد کردیا جائے گا۔
جناب شہباز شریف پر طنزکرتے ہوئے عمران خان نے کہا ہے ٹوپ اور سوٹ پہن کر مغرب کو دکھاتے ہیں کہ دیکھو ہم تمہاری طرح ہیں۔ جواب میں یہ کہنا درست ہوگا کہ ماضی کے حکمران کے برعکس اب عمران خان جو کسی اور کے مقاصد کے لئے مصروف کار ہیں شلوار قمیض پہن کر لوگوں کو دکھاتے ہیں کہ دیکھو میں تمہارے جیسا ہوں، ورنہ وہ تولندن اور مغرب کے ہیں۔ کوٹ مومن کے جلسے نے اب مریم نواز کو بڑا سیاسی لیڈربنادیا ہے۔
یہ ہمارے خطے کی روایت ہے۔ اس میں حرج کیا ہے ۔ بھٹو کی جانشین بے نظیر ہو سکتی ہیں، تویقیناً نوازشریف کی جانشنین مریم نوازہوسکتی ہیں اس معاملے پر اب رولا پانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے جناب نوازشریف نے مستبقل کے وزیراعظم کے لئے شہبازشریف کا نام تجویزکیا ہے۔نواز شریف کو علم تھا اور باربار تجربہ ہوا کہ سیاست بظاہردلکش مگرمصائب سے بھرپورشعبہ ہے۔ شفیق باپ نے بہت کوشش کی کہ مریم نوازسیاست میں نہ آئیں۔ وہ چاہتے تومریم نواز کو پہلے ایم این اے پھروزیربناسکتے تھے ۔ ایسا ہوتا توآج نوازشریف کی نااہلی کے بعد مریم نواز، وزیراعظم پاکستان ہوتیں ۔ مگرنوازشریف نہ مانے ۔ یہ تومریم نوازکے عزم ارادے کی پختگی اور اصرار پر نوازشریف اب مجبور ہوگئے ہیں۔ایک محترم شفیق نیک اور سلیم فطرت باپ خوش بھی ہے کہ اسے سیاسی جانشین مل گیا ہے مگراندیشے اور خدشات جناب نوازشریف کوبہت پریشان کرتے ہیں۔زندگی ،تقدیر یہ سب رب ذوالجلال کے ہاتھ میں ہے۔ نوازشریف کی دعائیں نوازشریف کی انکساری او رکے باوجود اپنی بیٹی مریم نوازکے ساتھ ہیں۔ جناب نوازشریف کی قناعت پسندی یا مزاج دیکھے کہ انہوں نے کسی بیان یا تقریرمیں مریم نوازکی تعریف نہیں کی۔ یہی ہم مشرقی باپوں کا مزاج اورفطرت ہے مگرمریم نوازمزاج شناس ہیں وہ نوازشریف کی چمکتی آنکھوں میں دیکھ لیتی ہوں گی کہ بے حد محبت کرنے والے باپ کی آنکھوں میں بیٹی کے لئے فخربھی موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ باپ بیٹی کی محبت کو سلامت رکھے۔ہمارے معاشرے میں خواتین کی لیڈرشپ کو حوصلہ افزائی کرنا چاہیے۔ بیٹیاں ہمارے معاشے کا بظاہر معصوم طبقہ ہے۔ یہ حقیقت تلخ سہی مگرتسلیم کرنے میں حرج نہیں ہے ۔ پروین شاکرنے کہا تھا۔
؎ لڑکیوں کے دکھ عجب ہیں اور ان کے سکھ عجیب
ہنس رہی ہیں اور آنکھیں بھیگتی ہیں ساتھ ساتھ
جناب شہبازشریف وزیراعظم پاکستان منتخب ہوجاتے ہیں تویہ نامناسب بات ہوگی کہ حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب ہوں۔ صاف ظاہر ہے کہ پھر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازہوں گی ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی نظریں وزارت عظمیٰ پر ہیں ہم ذاتی طور پر اس بات کے حامی نہیں ہیں کہ مریم نوازکو محض ایک صوبے تک محدودکردیا جائے آنے والے دنوں میں تقدیر کے فیصلے ظاہرہوتے رہیں گے ۔ پاکستان کے سیاسی ڈراموں کا کیا اختتام ہوتا ہے آنکھیں منتظررہیں گی۔
؎ یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

ای پیپر دی نیشن