دنیا کے تمام معاشروں اور تمدنوں میں اخلاقی اقدار مشترک نظر آتی ہیں۔ اخلاقیات کو تمام نوح انسانی کا مشترکہ اثاثہ کہا جا سکتا ہے۔ دین اسلام نے تمام اقدار کو اپنے نظام میں سمو دیا ہے۔ یہی اقدار ایک عام انسان کو تصوف کا رستہ دکھاتی ہیں۔ کائنات کا تصور,کائنات کے اندر انسان کی حثیت اور انسانی زندگی کا مقصد اسلام ہر سوال کا صاف صاف جواب دیتا ہے ۔ انسان خدا کی تخلیق ہے اور مخلوق کی حیثیت میں انسان کا فرض ہے کہ وہ خداکی بندگی و اطاعت کرے۔ اخلاقی اقدار کو حضرت میاں محمد بخش دوسرے مذہبی امور کی طرح ایک اہم عبادت قرار دیتے ہیں۔ آپ اخلاق کو انسانوں کے باہمی تعلقات میں اچھائی برتنے کا نام دیتے ہیں۔ آج ہمارے معاشرے میں ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے۔ اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔ آگے بڑھنے کی دوڑ میں لوگ اپنوں بیگانوں کو رگید رہے ہیں۔ اگر صرف عبادت ہی مقصد ہوتا تو فرشتوں کی موجودگی میں انسان کی تخلیق کی کیا ضرورت تھی؟ خالق اپنے بندوں سے عشق کا تمنائی ہے اور اس حوالے سے کسی قسم کے شرک کو پسند نہیں کرتا، اسی لیے صوفیا کرام بھی عبادت کو عشق کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بقولِ اقبال
میں جو سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
سرکار میاں محمد بخش ظاہری عالموں، درویشوں اور فقیروں کی بڑی سختی سے مذمت کرتے ہیں۔ ایسے لوگ جو اسلامی عقائد کی غلط تشریح کریں۔ ظاہری عبادت گزار کے بارے میاں صاحب کچھ یوں گویا ہوتے ہیں کہ
جے لکھ زہد عبادت کرئیے بن عشقوں کس کاری
جاں جاں عشق نہ ساڑے تینوں تاں تاں نبھے نہ یاری
میاں محمد بخش سرکار فرماتے ہیں کہ جب تک انسان کا دل خدا کا گھر نہ بن جائے وہ مسجد میں عبادت کرے یا جنگلوں میں چلہ کشی کرے اسے خدا کا وصل نصیب نہیں ہو سکتا اور نہ ایسے بندے پر حقیقت کے راز آشکار ہوتے ہیں۔ صوفیا کرام اسی لیے دل کی صفائی کے ساتھ ساتھ من کو پاک کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ صوفی ظاہر کو چمکانے کی بجائے من کو اُجلا کرنے پر زور دیتے ہیں۔ میاں صاحب ایمان اور عشق کو لازم و ملزوم سمجھتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ جب صدق ہو تو انسان کا انگ انگ خدا کا ذکر کرتا ہے۔ میاں صاحب فرماتے ہیں کہ خشک عبادت فرشتوں کو بھاتی ہے انسانوں کو نہیں اور انسان کی فضلیت علم کی وجہ سے ہی ہے۔ علم کا اصل مقصد اپنی ذات کو تلاش کرتے ہوئے انسان کا ذاتِ خداوندی تک پہنچناہے کیونکہ علم نور ہے اور اصل ذات بھی نور ہے۔ علم ہمیشہ عمل سے مشروط ہوتا ہے۔ میاں محمد بخش چاہتے ہیں کہ مسلم نوجوان علم کی طاقت سے مزین ہو کر دنیا پر حکومت کرنے کے قابل ہو سکیں۔ علم کی بنیاد روحانیت پر ہو۔ مقصد انسانیت کی فلاح و بہبود ہو تو ہی علم مفید کہلاتا ہے کیونکہ علم کی آخری منزل عشق ہے اور عشق کا تعلق بھی عمل سے ہے۔ عاشق کی ایک نگا ہ سے وہ کام ہو سکتا ہے جو ظاہری عالم کی لاکھ کوششوں سے بھی ممکن نہیں ہوا کرتا۔ اس لیے اقبال فرماتے کہ ’قوت ِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے‘‘ میاں صاحب نے تصوف کو منفی رحجانات سے پاک کیا۔ عباسی دور خلافت میں مسلمان عمل سے دور ہوچکے تھے۔ نتیجہ مسلمان علم و فنون، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں دوسری قوموں سے پیچھے رہ گئے۔ آپ نے اپنے کلام اور اپنی تعلیمات سے تصوف کی اصل شکل دکھانے کی کوشش کی۔ آپ نے شریعت ا ور طریقت کو یکساں اہمیت دی۔ انہوں نے بتایا کہ انسان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ خدا کی عبادت تو کرے مگر خدا کے بندوں کی خبر گیری نہ کرے ۔آپ کی نظر میں صوفی مرد ِکامل اور مرد ِ مجاہد ہے جو شاہین کی طرح اپنی روزی خود حاصل کرتا ہے۔ میاں محمد بخش کا مردِ کامل ایما ن کی قوت سے مالامال ہے۔ پہاڑ، دریا، آسمان، زمین سب اس کے تصرف میں ہیں سوائے موت کے وہ ہر مشکل کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ اقبال کا مردِ مومن میاں صاحب کے مردِ کامل سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے۔ اقبال اور میاں صاحب کے نظریات میں بہت زیادہ مشابہت پاتی جاتی ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی لگتا ہے کہ علامہ نے بعض مقامات پر میاں صاحب کے پنجابی کلام کو اردو شکل میں پیش کردیا ہے کیونکہ میاں صاحب مردِ کامل کو خود شناسی، غیرت مِلی اور حمیت دین کا احساس دلاتے ہیں۔
آپ قرآنی تعلیمات کے مطابق انسان کے دل کو زندہ کرنے اور اس میں عشق کا چراغ روشن کرنے کا سبق دیتے ہیں۔ وہ چراغ کی اس روشنی سے تمام جہان کو منور کرنا چاہتے ہیں۔ آپ دل کی روشنی سے ہر اندھیرا دور کرنے کی تمنا کرتے ہیں۔ حدیث ِ پاک میں ہے کہ انسان کے جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جب وہ درست ہوتو سارا بدن درست رہتا ہے اور جب وہ خراب ہو تو سارا بدن خراب ہو جاتا ہے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ خدا اور رسول کی محبت میں سرشار مردِ کامل ہمت اور جستجو سے نئے جہان پیدا کرتا ہے۔ عشقِ حقیقی اس کی شخصیت میں ایسا انقلاب پیدا کرتا ہے کہ وہ جلال و کمال سے سرفراز ہو جاتا ہے۔ پھر یہ مردِ کامل کائنات میں رائج قوانین کی پیروی کرنے کی بجائے قانونِ الٰہی کی روشنی میں انسانیت کی تشکیل کرتا ہے۔ یقین اور تعمیری قوت سے مالا مال انسان مردِ کامل ہے ۔سفر العشق میں شہزادہ سیف الملوک جس طرح مشکل حالات سے نبرد آزما ہو کے اپنی منزل کی طرف گامزن رہتا ہے۔ حضرت میاں صاحب آج کے مسلمان کے اندر بھی منزل کی وہ تڑپ پیداکرنا چاہتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ تلاش کرنے والا کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔ ہاں جس کی لگن اور خواہش میں کھوٹ ہو وہ ضرور نامراد رہتا ہے۔