پیر کو نئے سال 2019ء میں قومی اسمبلی کا پہلا سیشن شروع ہو گیا ہے۔ یہ قومی اسمبلی کا ساتواں اجلاس ہے جو 25 جنوری تک جاری رہے گا۔ حکومت و اپوزیشن میں اہم قانون سازی پر اتفاق ہو گیا ہے۔ قانون سازی کے معاملے پر کل جماعتی پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل اور اس ضمن میں پارلیمنٹ کی سطح پر کل جماعتی کانفرنس طلب کئے جانے امکان ہے جبکہ قومی اسمبلی کے رواں سیشن میں فوجی عدالتوں کی آئینی ترمیم آنے کا امکان ہے۔ اس بارے میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کو ایک صفحہ پر لانے کی کوششیں شروع ہو گئی ہیں۔ 25 جنوری2019 تک اجلاس جاری رکھنے کا فیصلہ پیر کو قومی اسمبلی کی ہاؤس بزنس ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس میںکیا گیا ہے۔ آئندہ قوانین میں ترامیم کے بل کے مسودہ پر مفاہمت کے بعد سینیٹ اجلاس بھی طلب کر لیا جائے گا۔ حسب معمول نئے سال کے آغاز میں قومی اسمبلی کا اجلاس قومی ترانہ سے شروع ہوا۔ تمام ارکان اور سپیکر قومی اسمبلی قومی ترانہ کے احترام میں نشستوں سے کھڑے ہو گئے۔ بیشتر حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے بروقت ایوان نہ پہنچنے کی وجہ سے ایک گھنٹے کی تاخیر سے قومی اسمبلی کا اجلاس پانچ بجے شام شروع ہوا ۔ اجلاس کے آغاز میں قائد حزب اختلاف محمد شہباز شریف نے ارکان کو نئے سال 2019ء کی مبارکباد دی ا ورملکی ترقی و خوشحالی اور اقوام عالم میں باعزت مقام کے جذبات کا اظہار کیا۔پیر کو پارلیمنٹ ہائوس میں غیر معمولی سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں۔ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کی ایوان میں موجودگی کے دوران دونوں اطراف سے ایک دوسرے کے لئے محبت کے جو جذبات دیکھے گئے ہیں اس سے ملک کے آئندہ سیاسی منظر کی عکاسی ہوتی ہے۔ دونوں کے درمیان پائی جانے والی ’’تلخی‘‘ قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے آصف علی زرداری کی تقریر سننے کے لئے اپنی فزیو تھراپی موخر کر دی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے اپنی تقریر کے بعد اپنے گھر جانا تھا،شہباز شریف کی فزیو تھراپی کے لئے فزیوتھراپسٹ ان کا انتظار کر رہے تھے لیکن شہباز شریف آصف علی زرداری کی تقریر سننے کے لئے بیٹھ گئے اور تقریر سننے کے بعد ایوان سے اٹھ کر گئے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان قربتیں بڑھ گئی ہیں ، میاں شہباز شریف نے آصف زرداری کی آمد پر ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کیا ۔ اس موقع پر شہباز شریف اٹھ کر آصف علی زرداری کے پاس گئے اور دونوں کے درمیان پرجوش مصافحہ ہوا جبکہ دونوں نے ایک دوسرے سے حال احوال پوچھا،جبکہ سردار ایاز صادق نے آصف زرداری کا پیغام بھی میاں شہباز شریف کو پہنچایا۔ بعد ازاں سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کافی دیر آصف علی زرداری سے گفتگو کرتے رہے جس کے بعد ایاز صادق اٹھ کر میاں شہباز شریف کے پاس آگئے اور ان تک آصف زرداری کا پیغام پہنچایا۔آصف علی زرداری نے سیاسی ماحول کے پیش نظر زوردار تقریر کی اور انھوں نے بین السطور ان تمام قوتوں کو جارحانہ پیغام دیا جو انھیں نیب کی تحویل میں دیئے جانے کی دھمکیاں دیتے ہین۔ انھوں نے اپنی تقریر میں واضح کر دیا کہ وہ نیب سے نہیں ڈرتے، انھوں نے بڑے نیب دیکھے ہیں۔ آصف علی زرداری نے مطالبہ کیا ہے کہ ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے جو پارلیمنٹریز کے نیب میں پیش ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرے۔ چیئرمین نیب کے سامنے ہم کیوں جائیں انہیں خود پارلیمنٹ میں پیش ہونا چاہیے، حکومت کو اندر سے دیمک کھارہی ہے ہم اس حکومت کو نہیں گرائیں گے اسے تو خود گرنا ہے۔ انھوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ مانگے تانگے کی حکومت ہے نہ جانے کتنے دن چلے۔ انھوںنے حکومت پر برستے ہوئے کہا کہ حکو مت کا کوئی ادارہ کام نہیں کر رہا،بہت نیب دیکھے مجھے انکاکو کوئی ڈر نہیں، لیکن مجھے فکر حکومت میں بیٹھے لوگوں کی ہے، جس دن انکو نیب میںپیش ہونا پڑا تو پھر کیا بنے گا، مجھے اپنے سے زیادہ انکا غم زیادہ ہے، انھوں نے میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ سے ملنے والے ریلیف پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ میں بی بی مریم کو جیل میں نہیں دیکھنا چاہتا۔آصف علی زرداری نے کہا کہ کچھ لوگ چیئرمین نیب سے ملنے کی باتیں کر رہے ہیں مگر کیوں جائیں؟ انھوں نے کہا کہ میری عمر64سال ہے،70سال جیوں یا80یہ میرے مالک کو پتہ ہے،جب تک میں زندہ ہوں پارلیمنٹ کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہوں۔یہ جو لوگ نئے نئے حکومت میں آئے ہیں انکوبھی سکھانا چاہتا ہوں۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے بھی خطاب کیا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کیلئے دئیے گئے ٹھیکے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس طریقے سے مہمند ڈیم کا ٹھیکہ دیا گیا ہے اس پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے، ایسی کونسی قیامت آگئی تھی کہ سنگل بڈ پر ٹھیکہ دیدیا گیا، یہ ایک ٹھیکے کی بات نہیں قوم کے 309ارب روپے کا معاملہ ہے۔ سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات کی مہربانی ہے کہ انہوں نے مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی، دوست ممالک کی جانب سے پاکستان کو امداد میں وزیراعظم یا حکومت کا کوئی کمال نہیں ہے، امداد ملنے میں سارا کردار آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا ہے۔ دیامیر بھاشا ڈیم کے لیے زمین ہماری حکومت میں 100 ارب روپے کی خریدی گئی۔مسلم لیگ ن نے جنگی بنیادوں پر لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل کیا، ہمیں یہ رائے دی گئی کہ پیپرا رولز کو معطل کر کے براہ راست ٹھیکے دئیے جائین جس سے 5سے6ماہ کا وقت بچے گا مگر ہم نے ایسا نہیں کیا ۔ متحدہ حزب اختلاف اپوزیشن لیڈر محمد شہباز شریف کو آئندہ تقریر نہ کرنے کی حکومتی دھمکی کے خلاف قومی اسمبلی سے احتجاجاً واک آئوٹ کر گئی تاہم کورم کی نشاندہی کے معاملے پر اپوزیشن کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ۔ اپوزیشن لیڈر مہمند ڈیم کے حوالے سے حکومتی مشیر رزاق دائود پر الزام تراشی پر مبنی تقریر کے بعد ایوان سے جانے لگے تو پرویز خٹک ، فیصل واوڈا اور طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ آپ اب سُن کر بھی جائیں سپیکر اسد قیصر نے شہباز شریف کو متوجہ کیا کہ حکومت کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ موقف سُن لیں جس پر شہباز شریف اپنی نشست پر آئے مائیک آن ہوا تو بولے گالی گلوچ نہیں سن سکتا سپیکر نے کہا کہ ایسا نہیں ہو گا اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ پہلے ایسا ہو چکا ہے گالی گلوچ نہیں سن سکتا اور شہباز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا اسعد محمود سے مصافحہ کرتے ہوئے تیزی سے ایوان سے باہر نکل گئے جس پر وزیر ہائوسنگ و تعمیرات طارق بشیر چیمہ طیش میں آگئے اور کہا کہ ایسی صورتحال برقرار رہتی ہے تو آئندہ شہباز شریف کو تقریر نہیںکرنے دیں گے جس پر ایوان میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ اپوزیشن ارکان اپنی نشستوںپر کھڑے ہو گئے خواجہ آصف نے کہا کہ وزیر موصوف نے شہباز شریف کو تقریر نہ کرنے دینے کی دھمکی دی ہے وزیر اعظم چھ ماہ سے اس ایوان میں نہیں آئے وزیر خزانہ کہاں ہیں ایسے ایوان نہیں چل سکتا وزیر اعظم کو توفیق نہیں ہے کہ وہ اس ایوان میں آکر جواب دے سکیں ان ریمارکس پر سپیکر نے خواجہ آصف کا مائیک بند کروا دیا شاہد خاقان عباسی بھی بولتے رہے مگر انہیں فلور نہیں دیا گیا جس پر پاکستان مسلم لیگ ن ، پاکستان پیپلز پارٹی ، ایم ایم اے دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ارکان احتجاجاً واک آئوٹ کر گئے اپوزیشن کے واک آئوٹ کے دوران حکومتی ارکان نے ان پر شدید ہوٹنگ کی شگفتہ جمانی نے کورم کی نشاندہی کردی لیکن گنتی کروائی گئی تو 104ارکان موجود تھے جس پر سپیکر نے اعلان کیا کہ ہائوس ان آرڈر ہے۔