مجید نظامی کی کہکشائوں کی خیرہ کن روشنی

مجید نظامی سچے عاشق رسولؐ اور توحید ربانی کے علم بردار تھے۔ یہی وہ اعتقادات ہیں جو دو قومی نظرئیے کی اساس بنے۔ اقبال کی فکر ا ور قائداعظم کے کردار نے اس نظریئے کو جلا بخشی اور حمید نظامی نے اس نظریئے کونسل درنسل منتقل کیا اور اس کی آبیاری کی۔ اس مقدس مشن کی تکمیل میں حمید نظامی کو وہی مشکلات پیش آئیں جن کا سامنا بابائے قوم قائداعظم کو کرنا پڑا مگر جناب نظامی نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور وہ مستقل مزاجی کے ساتھ دو قومی نظریئے کے فروغ اور پرچار میں مصروف رہے۔قائد کی ناگہانی رحلت کے بعد نوائے وقت اس جدو جہد میںتنہا رہ گیا۔پاکستان کی دشمن قوتوں نے ملکی نظام پر حاوی ہونے کی کوشش کی۔ بانی نوائے وقت حمید نظامی نے ان کے خلاف ان تھک جہاد کیا مگر وہ دل کے ہاتھوں ہار گئے اور جان ، جان آفریں کے سپرد کر دی مگر وفات سے پہلے وہ اپنا علم اپنے چھوٹے بھائی مجید نظامی کے ہاتھوں میں تھما چکے تھے۔ ملک میں مارشل لا کے اندھیرے مسلط ہو گئے ، مجید نظامی اور جمہوریت پسند قوتوںنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کیا اور قائد کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت میں جمہوریت کی بحالی کی جانگسل جدوجہد شروع کی۔ مجید نظامی نے محترمہ فاطمہ جناح کومادر ملت کا خطاب عطا کیا۔ ایوب خان نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ مجید نظامی یہ خطاب واپس لے لیں مگر قائد کی میراث کے اس رکھوالے نے فوجی ڈکٹیٹر کے سامنے سر جھکانے سے انکار کیا۔ ایوب خاںنے انگریز کے ٹوڈیوں،جاگیر داروں اور مفاد پرستوں کوساتھ ملاکر مادر ملت کو صدارتی الیکشن میں شکست دی مگر یہ شکست ایوب خان کے زوال کا باعث بن گئی۔ خود ایوب کابینہ کے ایک باا ثر وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی۔ مجید نظامی نے محسوس کیا کہ وہ بھٹو کی سرپرستی کر کے فوجی ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ دیگر جمہوریت پسند قوتوں نے بھی ان کا ساتھ دیا اور بھٹو کو پہلی بار وائی ایم سی اے ہال لاہور میں عوامی خطاب کے لئے مدعو کیا۔ یہ جلسہ فوجی ڈکٹیتر ایوب خان کو لے بیٹھا۔ اگرچہ ملک میں ایک بار پھر مارشل لا لگ گیاا اور اس کی کمان جنرل یحیٰی خان کے ہاتھ میں تھی مگر مجید نظامی مایوس ہونیو الے انسان نہ تھے۔ انہوں نے ایک اعصاب شکن جنگ جاری رکھی ۔حتی کہ ملک میں بھٹو نے انتخابی فتح کے بعد اقتدار حاصل کر لیا۔ بھٹو نے اپنے تیور دکھائے ا ور ملک میں فسطائیت کو فروغ دینے کی کوشش کی، نوائے وقت کے اشتہار بند کر دیئے۔ مصطفی صادق نے بھٹو اور مجید نظامی کے درمیان مفاہمت کی کوشش کی۔ وہ بہانے سے نظامی صاحب کو بھٹو کے پاس لے گئے۔ کافی دیر تک ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں تو بھٹو نے تنگ آ کر کہا، اوئے مصطفی،وہ بات کیوںنہیں کرتے جس کے لئے آئے ہو۔ نظامی صاحب نے حیرت سے پوچھا کون سی ایسی بات ہے جس کے لئے مجھے یہاں لایا گیا ہے اور میں ہی ان سے لا علم ہوں ۔ مصطفی صادق نے کہا کہ آپ کے اخبار کے اشتہار کھلوانے کی بات۔ نظامی صاحب نے طیش میں آ کر کہا ۔ مصطفی ۔ آپ نے مجھے دھوکے سے بلایا۔ مجھے اپنے اشتہارات کی بحالی سے کوئی غرض نہیں، اور بھٹو ان کا منہ ہی دیکھتے رہ گئے۔ کون ہے جو کسی حکمران سے ا شتہاروں کی بھیک نہیں مانگتا اور جب بھٹو ان اشتہارات کی بارش کرنے کے لئے تیار تھا تو یہ مجید نظامی ہی کی ذات تھی جو اس میٹنگ سے ا ٹھ کر چلی آئی ، وہ کسی سودے بازی کے لئے تیار نہیں تھے۔یہ ان کی فطرت کے خلاف تھا۔ ان کے نظریات کے منافی تھا۔ مجید نظامی نے بھٹو پر تنقید جاری رکھی اور بالاآخر اسے بھی اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد پی این اے کی مدد سے چلتا کیا۔ مجید نظامی کی جدو جہد کسی منطقی نتیجے تک نہیں پہنچی تھی کہ ملک ایک نئے مارشل لا کے چنگل میں پھنس گیا، یہ تیسرے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق کا دور تھا۔ نہ کوئی آئین ۔ نہ کوئی قانون، نہ شہریوں کے بنیادی حقوق۔ بس ڈکٹیٹر کی زبان سے نکلا لفظ ہی آئین اور قانون کا درجہ رکھتا تھا۔ اسی جنرل ضیا الحق نے ایک بار عالم طیش میں کہا کہ یہ آئین کیا ہے۔ چند صفحوں کی کتاب جسے پھاڑ کرمیں بوٹوں تلے کچل چکا ہوں۔مجید نظامی نے ا سی ا ٓمر کی گود میں پلنے والے نواز
شریف کو اپنی امیدوں کا مرکز بنایا۔ ان کی سیاسی پرورش کی۔ اس کے سر پہ مشفقانہ ہاتھ رکھا مگر جب نواز شریف کے ہاتھ میں کلی اقتدرا ٓگیاتو وہ بھی غیر آئینی اور غیر جمہوری راستوں پر چل نکلا۔ بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے اور نواز شریف کے پائوں ڈگمگا گئے کہ کہ جوابی دھماکے کروں یا کلنٹن سے مال پانی بنا لوں ۔ اس کے گرد صحافیوں ہی کا ایک ٹولہ ایسا اکٹھا ہو گیا تھا جو نواز شریف کو مفاد پرستی کی طرف راغب کرنے کی کوشش کررہا تھا، یہی وہ وقت ہے جب مجید نظامی کی للکار بلند ہوئی کہ نواز شریف دھماکہ کرو ورنہ عوام تمہاری حکومت کا دھماکہ کر دیں گے۔ میں تمہارا دھماکہ کر دوں گا۔یہ ہیں وہ مجید نظامی جن کے خلاف کچھ حاسدین لنگر لنگوٹ کس کر اکھاڑے میں اتر آئے ہیں۔ مجید نظامی کے مخالفین کئی قسم کے ہیں ۔ ایک تو وہ جن سے کاروباری مسابقت درپیش رہی ہے۔ ایسی مخالفت معمول کی بات ہے ۔ کچھ وہ ہیں جنہیں مجید نظامی کے نظریاتی تشخص کو تہس نہس کرنے کا شوق چرایا ان کی خواہش ہے کہ یہ نظریاتی دستار ان کے سروں پہ سج جائے مگر مصیبت یہ ہے کہ دولے شاہ کے چوہوں کے چھوٹے سے سروں سے یہ دستار کھسک کھسک جاتی ہے۔مجید نظامی کی دشمنی میں پیش پیش ایک گروہ وہ ہے جو سیدھے سیدھے بھارت کا شردھالو ہے۔یہ انڈین نیشنل کانگرس کی باقیات میں سے ہیں اور کچھ نے بھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی ) کی ٹکسال سے اپنے تنقیدی نیزوں کو زہر میں ڈبو لیا ہے۔مجید نظامی سے بغض کا اظہار کرنے والے وہ بھی ہیں جو غیر ملکی سفارت خانوں کے دستر خوان سے بہرہ مند ہوتے ہیں اور جنہیں قومی آزادی کی کوئی پروا نہیں۔ وہ بڑی طاقتوں سے مرعوب ہیں اور اس قدر احساس کمتری کا شکار ہیں کہ نئی استعماری طاقتوں کے بوٹ پالش کرنے کے لئے ہر دم تیار ہیں۔ قومی تفاخر اور قومی حمیت نام کی کوئی شے ان کے قلب و ذہن کے قریب بھی نہیں پھٹکتی اور مجید نظامی کے خلاف نبرد آزما کچھ وہ بہروپیئے ہیںجو دوقومی نظریئے کا ذکر منافقت سے کرتے ہیں۔ ان کے منہ سے رال ٹپک رہی ہے کہ کسی طرح نظریاتی دکان کی ملکیت انہیں مل جائے اور مجید نظامی،،نوائے وقت ا ور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کو اس مشن سے فارغ کر دیا جائے۔یہ بہروپئے مجید نظامی کے حقیقی دشمن ہیں کیونکہ وہ بظاہر مجید نظامی کی مالا جپتے ہیں ان کے سامنے سرجھکانے کا اعتراف کرتے ہیں۔ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مصداق یہ اندر ہی اندر مجید نظامی کے قومی امیج کو بگاڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہی اب عمران خان کو پکار رہے ہیں اورا س کے خیر خواہ کا روپ دھار کر ان سے التجا کرر ہے ہیں کہ خدا را کسی طرح دو قومی نظریئے کی دکان کی چابی ان کے حوالے کر دی جائے مگر یہ احمق طبقہ بھول جاتا ہے کہ عمران خان تو ریاست مدینہ کے احیا کی بات کرتا ہے۔ اسی ریاست مدینہ کی علامت کے طور پر پاکستان کی تخلیق عمل میں آئی تھی اور مجید نظامی نے آخری سانس تک ایک ہی بات کی تھی کہ پاکستان کو ایک جدید جمہوری فلاحی مملکت کا نمونہ بنایا جائے گا۔ اسی خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انہوںنے عمر بھر رہنمائی کی اور اگر عمران خان نے کہیں سے سنا ہے کہ پاکستان کو ریاست مدینہ کی شکل دینی ہے تو مجید نظامی کی زبان سے سنا ہے۔مجید نظامی کے نوائے وقت کے صفحات کی گونج سے سنا ہے ا ور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی عملی جدو جہد سے اسے اس حقیقت اور فلسفے کاا ادراک ہوا ہے۔ عمران خان اقبال ، قائد اور مجید نظامی کے خوابوں کوعملی تعبیر دینے کے لئے ہمہ تن مصرف ہیں۔قائد اعظم پر فلم کا نام وہ پیر فرتوت لے رہے ہیں جنہوںنے ساری عمر ہاتھ میں کیمرہ نہیں پکڑا۔ جنہوںنے کسی فلم یا ڈاکو منٹری کے اسکرپٹ کی ایک سطر تک نہیں لکھی۔اور جن کی ساری زندگی قائدا ور قبال کے نظریات سے برعکس مفادات کے لالچ میں گزری ہے اور وہ مرتے مرتے بھی قائد اعظم پر فلم کی آڑ میں پچاس کروڑ پر ہاتھ صاف کرنا چاہتے ہیں۔پچھلے دنوں ایک سیاست دان نے راوی ا ور ستلج فورم بنا کر جنوبی پنجاب کے لوگوں کو بیوقوف بنایااور ایک اکائونٹ کھول کر سادہ لوح افراد سے چندہ بٹورا۔یہ فنڈ جس طرح ہضم کر لیا گیا، اسی طرح قائد اعظم پر فلم کا جذباتی نعرہ لگا کر یہ ٹولہ مزید فنڈ ہڑپ کرنا چاہتا ہے۔ورنہ اب کوئی تخلیقی کام کرنے کی ان میں صلاحیت باقی ہے اور نہ کاتب تقدیر کی طرف سے انہیں اتنی مہلت مل سکتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ وہ اللہ االلہ کریں اور باقی کے سانس گن گن کر پورے کریں۔شاعر نے اسی نفسیاتی اور ہذیانی کیفیت کایوں نقشہ کھینچا ہے: ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...