کرائے کی بندوق سے پہلا فائر

کرائے کی بندوق کے نام سے ایک اچھا کالم بڑی بہادری سے حامد میر نے لکھا ہے۔ انہوں نے صدر ایوب خان کو کرائے کی بندوق قرار دیا ہے اور عمران خان کو سختی سے کہا ہے کہ وہ ایوب خان کے دور کو ترقی کا دور کہنے سے گریز کریں۔ پاکستان کے کئی حکمرانوںنے کئی بار یہ شرمناک کردار ادا کیا ہے۔ حامد نے اس کا ذکر کیا ہے اور اس تاثر کو بھی زائل کرنے کی کوشش کی کہ ترقی صرف صدر ایوب کے دور میں ہوئی تھی۔
پہلی مرتبہ صدر جنرل ایوب نے جمہوری نظام پر حملہ کیا تھا اور دیر تک اس حملے کو قائم رکھا تھا۔ اس غیر جمہوری آمرانہ دور کو ترقی کا دور کہا جاتا ہے۔ اس پرغور کرنا چاہئے کہ اب تک ترقی کے حوالے سے جو کچھ ہوا وہ فوجی زمانے میں ہوا ہے؟ جمہوری حکومت والے اس پر غور کریں۔ ہم بہر حال اس دور کو آمرانہ دور ہی سمجھتے ہیں، مگر جمہوری دور کے وارثوں کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔
کبھی کبھی کرائے کی بندوق سے بھی بڑی معرکہ آرائی ہو جاتی ہے۔ مگر یہ نام ساری کہانی کی تفصیل بیان کر دیتا ہے جس میں رسوائی بھی ہے۔ تیسری دنیا نے بالعموم کردار سرانجام دیا ہے۔ آپس کی لڑائیوں میں بھی یہی بندوق کام کرتی دکھائی دیتی ہے۔ جس نے اپنی کوئی بندوق استعمال کرنے کی کوشش کی۔ وہ بندوق ہی ناکارہ بنا دی گئی اور یہ بندوق چلانے والے کو کسی لالچ یا خوف کی رسی سے باندھ دیا گیا۔ یا راستے سے ہٹا دیا گیا اور آپس میں لڑانے پر تیار کر لیا گیا۔ کرائے کی بندوق کے لئے اصل کہانی بھی کبھی حامد میر بیان کرے گا۔
ایک بات تحریک انصاف کی بہت معروف سیاستدان لیڈر ثروت روبینہ نے کہی ہے کہ کرپشن کرنا اور کم تولنا تو سامنے کی بات ہے۔ فیصلہ تو ہم خود کرتے ہیں اور دنیا میں ہی کرتے ہیں۔ پھر دنیا ہماری پسند کے مطابق کیوں نہیںہو جاتی اور ہماری دنیا کیوں خراب ہے۔
آخر تحریک انصاف کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کیوں ناکام ہو گئی ہیں۔ جبکہ وہ ڈاکٹر ہیں۔ ہسپتالوں کی حالت نہیں بدلی۔ میں پچھلے دنوں جناح ہسپتال بہت جاتا رہا ہوں جب علامہ اقبال میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر راشد ضیا تھے۔ وہ جناح ہسپتال کی نگرانی بھی کر لیا کرتے تھے اور حالات اچھے تھے۔
میں نے پچھلے دنوں ایک کالم لکھا تھا اور اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ جناح ہسپتال محمد علی جناح ہسپتال کب بنے گا۔ میں نے تحریک انصاف کی مخلص اور دلیر سیاستدان ثروت روبینہ کا ذکر بھی کیا تھا۔ انہوں نے جناح ہسپتال کے حوالے سے اپنی وزیرصحت ڈاکٹر یاسمین راشد کا ذکر کیا کہ وہ وزیر صحت کی حیثیت سے ناکام ہوگئی ہے۔ ہسپتالوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی محترمہ ثروت روبینہ کی یہ بات چیت بامعنی ہے ’’نماز قبول ہوئی ہے یا نہیں ہو گی۔ یہ بعد میں پتہ چلے گا مگر کم تولنا، کرپشن کرنا اور کسی کی حق تلفی کرنا تو سامنے کی بات ہے اور دنیا میں ہی اس کے نتائج ظاہر ہوتے ہیں۔ ہم دنیا کو خوبصورت بنانے کی خواہش اور کوشش کرتے رہتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ ہماری دنیا کیوں خراب ہے۔ بہت سی باتوں کا فیصلہ ہم دنیا میں خود ہی کر سکتے ہیں۔ پھر ہماری دنیا میری امی جان اور بڑے بھائی جان پروفیسر محمد اکبر خان نیازی فوت ہو گئے۔ ان کی فوتیدگی میں صرف ہفتہ ڈیڑھ کافرق ہے۔ امی جان ہر وقت دعائیں کرتی تھیں۔ بھائی جان اکبر نیازی کی موجودگی ایک سہارے کی طرح تھی مگر یہ کیا کہ امی جان سے زیادہ بھائی جان یاد آتے ہیں۔ دعا دینے سے بھی زیادہ بڑی بات ہے کیا؟
میں اپنے نواسوں اور پوتوں سے بہت پیار کرتا ہوں۔ مگر محمد فیصل نیازی اور محمد مصطفیٰ نیازی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ایک چیز اضافی لگتی ہے اور وہ اضافی بھی نہیں ہے۔ اور وہ معصومیت ہے اکثر لوگ بڑے ہو کر معصومیت کہیں گم کر دیتے ہیں۔ یہ ایسی چیز ہے جو خود بخود گم نہیں ہوتی۔ ہم نے اس کا خیال بھی کبھی نہیں رکھا۔ بہت کم بہت ہی کم خواتین و حضرات ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے پاس معصومیت محفوظ رہتی ہے اس کا کریڈٹ بھی معصومیت کو جاتا ہے۔ معصوم لوگوں سے سوال کیا جائے تو انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ معصومیت کیا ہے اور وہ ہمارے پاس ہے بھی کہ نہیں ہے۔ یہ فیصلہ دوسرے کرتے ہیں کہ کوئی معصوم ہے یا نہیں ہے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...