آئیے! اپنی محدودات کو پہچانیں

Jan 15, 2020

نصرت جاوید

’’صحافت‘‘ میں ہمیشہ یہ سمجھتا رہا کہ فقط اخبارات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ٹیلی وژن بنیادی طورپر ’’شوبز‘‘ ہے۔ یہاں ’’ڈرامہ‘‘ درکار ہے۔مکالمے کے بجائے مباحثہ۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش۔ چسکہ فروشی کی تمنا۔ Ratingsکی ہوس۔اپنے تعصبات کی وجہ سے پرنٹ سے الیکٹرانک میڈیا کی جانب منتقل ہونے سے کئی برس گھبراتا رہا۔مالی اعتبار سے فقط تنخواہ پر گزارہ کرنے والے مجھ ایسے صحافی کے لئے ٹی وی صحافت کے خلاف میرے ذہن میں جمع ہوئے تحفظات قطعی طورپر احمقانہ تھے۔سکرینوں پر نمودار ہونے والے صحافیوں کو شہرت کے علاوہ محض لکھ کر رزق کمانے والوں سے کہیں زیادہ معاوضہ ملتا ہے۔الیکٹرانک صحافت سے میرا بغض اس وجہ سے بھی غیر منطقی محسوس ہوتا تھا کیونکہ چھٹی جماعت سے ریڈیو پاکستان لاہور کے سکول کے براڈ کاسٹ والے پروگراموںمیں حصہ لینا شروع ہوگیا تھا۔ان پروگراموں میں شرکت کے لئے باقاعدگی سے جانا شروع ہوا تو ڈرامے اور موسیقی کے بے شمار Shadesسے بھی آگہی نصیب ہوگئی۔1960کے وسط میں ریڈیو پاکستان کے پچھواڑے میں پاکستان ٹیلی وژن کی نشریات بھی شروع ہوگئیں۔ منہ اٹھائے ریڈیو سے وہاں چلا جاتا تھا۔وہاں موجود آغا ناصر صاحب جیسے مہا پروڈیوسر اور بے تحاشہ فن کار اور پروڈکشن کے معاملات کے ماہر دیگر افراد بہت شفقت سے پیش آتے۔ ان کی مہربانی نے مجھے نسبتاََ جواں سالی میں ٹی وی ڈرامے لکھنے کا ہنر بھی تھوڑا سمجھادیا۔ 1980کی دہائی میں لیکن ٹی وی ڈرامے لکھ کر مستقل روزگار کے امکانات جنرل ضیاء کی ’’اسلام پسندی‘‘ کے باعث معدوم نظر آئے۔ سب کچھ تج کر خود کو ہمیشہ کے لئے کل وقتی صحافت سے وابستہ کرلیا۔ اپنی لگن کی بدولت شعبہ صحافت میں تیزی سے کامیاب ہوتا نظر آیا۔ ’’ٹہکا شہکا‘‘ تونصیب ہوگیالیکن مالی حالات دُگرگوں ہی رہے۔2002میں جب پاکستان میں ٹی وی صحافت شروع ہوئی تو ریڈیو اور پی ٹی وی کے ساتھ پرانی وابستگی کی وجہ سے کئی اداروں نے رابطہ کیا۔میں کنی کتراگیا۔ 2007کے وسط میں لیکن سید طلعت حسین مجھے ٹی وی صحافت کی جانب ثابت قدمی سے مائل کرنا شروع ہوگئے۔شاید ان کی کاوشیں بارآور ثابت نہ ہوتیں۔ مشتاق منہاس نے مگر نہایت ڈھٹائی سے اپنے ساتھ ایک ٹی وی پروگرام شروع کرنے کے لئے رضا مند کرلیا۔میں اور مشتاق جو پروگرام شروع کررہے تھے اس کے ’’پرومو‘‘ یعنی اشتہار کے لئے عمرعتیق کو ذمہ داری سونپی گئی۔عمر ریڈیو کے ایک بہت نامور پروڈیوسر عتیق احمد شیخ اور صلاحیتوں سے مالا مال اداکارہ ثروت عتیق کے صاحبزادے ہیں۔تخلیقی صلاحتیں ورثے میں پائی ہیں۔ہمارے پروگرام کے ’’پرومو‘‘ کی ریکارڈنگ ان ایام میں ہوئی جب عدلیہ بحالی کی تحریک بہت آن شان سے نمودار ہورہی تھی۔ مشتاق منہاس اس تحریک کے بار ے میں بہت پُرجوش تھا۔ عمر عتیق نے خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ’’پرومو‘‘ کے لئے عدلیہ بحالی کی تحریک کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کرے۔مشتاق نے بہت مان سے چند الفاظ کہے جو عدلیہ بحالی کی تحریک سے وطن عزیز میں انقلاب برپا ہوتا دیکھ رہے تھے۔مجھ سے رہا نہ گیا۔بے ساختہ اپنی سفید ہوتی داڑھی پر اُنگلیاں پھیرتے ہوئے ممکنہ ’’انقلاب‘ ‘کے بارے میں مایوسی پھیلاتے کلمات ادا کردئیے۔میری مرحومہ ماں اکثر کہاکرتی تھیں کہ زبان سے کوئی لفظ ادا کرنے سے پہلے تھوڑا سوچنا ضروری ہے۔’’قبولیت کی گھڑی‘‘ سے انہیں خوف آتا تھا۔ انگریزی زبان کا ایک لفظ ہے Death Wish۔مطلب اس کا سادہ زبان میں یہ ہے کہ کوئی شخص خود کو مایوسی اور تباہی کے بارے میں مسلسل سوچتے ہوئے انہیں اپنے لئے یقینی بنالیتا ہے۔ ہمارے ہاں ’’کالی زبان‘‘ والا تصور بھی ہے۔ٹی وی صحافت کا آغاز کرتے ہوئے میری ’’کالی زبان‘‘نے عدلیہ تحریک کے بارے میں جو الفاظ بے ساختہ ادا کئے غالباََ ’’قبولیت کی گھڑی‘‘ میں ادا ہوئے تھے۔ہم سب کو اجتماعی طورپر لیکن ’’اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا‘‘دریافت کرنے میں بتدریج کئی سال لگے ہیں۔عدلیہ بحالی کی تحریک کے دوران بیرسٹر اعتزاز احسن کا ترانہ ’’ریاست ہوگی ماں کے جیسی‘‘ بہت مشہور ہوا تھا۔ہماری ریاست ’’ماں‘‘ بننے سے مگر بدستور انکار ی ہے۔ ’’ماں‘‘ کا روپ اگر کبھی دھارنے کی کوشش بھی کرتی ہے تو رویہ اس کا ’’مترئی (سوتیلی)ماں‘‘ جیسا ہوتا ہے۔ تفصیلات میں جائے بغیر مجھے یہ دعویٰ کرنے کی اجازت دیجئے کہ عدلیہ بحالی کی تحریک نے ہمارے ملک میں امید کی جو لو جگائی تھی بالآ خر اب ماند پڑگئی ہے۔بحیثیتِ قوم ہم ’’آنے والی تھاں‘‘ پر واپس آچکے ہیں۔ طاقت کا توازن ہماری ہر نوعیت کے اشرافیہ کے مابین اسی تناسب سے برقرار ہے جس تناسب کے ہم کئی دہائیوں سے عادی ہیں۔سوشل میڈیا پر لیکن بے چین روحوں کا ایک ہجوم ہے جو ہمارے ہاں حکمران اشرافیہ کے مابین قائم طاقت کے توازن کی اپنی اصل حیثیت میں بحالی کی بابت ہکابکا ہوا نظر آرہا ہے۔مایوسی کے اس عالم میں زیادہ دوش سیاست دانوں خاص طورپر نوازشریف کے نام سے منسوب ہوئی مسلم لیگ کو دیا جارہا ہے۔ریگولر میڈیا کو ’’’بکائو‘‘ تصور کرتے ہوئے حقارت کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔سیاست دانوں سے مجھے کوئی ہمدردی نہیں۔1985سے ان کی قلابازیوں کو بہت قریب سے دیکھ رہا ہوں۔ ان کی کمزوریوں سے خوب واقف ہوں۔حال ہی میں ایک اہم ترین قانون جس سبک رفتاری اور اتفاقِ رائے سے پاس ہوا کے حوالے سے فقط ان کی مذمت سے گریز کو لیکن مجبور ہوں۔سوال اٹھتا ہے کہ پارلیمان کی ’’اہمیت ووقعت‘‘ کو اصل زک پہنچانے کا عمل کہاں سے شروع ہوا تھا؟۔اس سوال کا دیانت داری سے جواب ڈھونڈنا چاہیں تو اعتراف کرنا ہوگا کہ میڈیا کی بھرپور معاونت سے اس ادارے کی تذلیل کا سفر افتخار چودھری نے چیف جسٹس کے عہدے پر اپنی بحالی کے ساتھ ہی شروع کردیا تھا۔ چودھری صاحب کے لئے ’’سوموٹو‘‘ اقدامات ہی نے ہمیں قائل کیا کہ پارلیمان میں ’’جعلی ڈگریوں‘‘والوں کی اکثریت ہے۔یہ ہمیشہ اپنی مراعات میں اضافے کے غم میں مبتلا رہتے ہیں۔اقتدار واختیار کو ذاتی اثاثے بڑھانے کی ہوس پوری کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔وزیر اعظم ہمارے آئین میں ’’چیف ایگزیکٹو‘‘ ٹھہرایا گیا ہے۔عوام کے براہِ راست ووٹوں سے منتخب ہوئے ایوان کے سربراہ کی لیکن جو درگت افتخار چودھری صاحب کے زمانے میں بنی ہم سب کو اسے بھی یاد رکھنا ہوگا۔ یوسف رضا گیلانی سے تقاضہ ہوا کہ وہ اپنے ہی ملک کے منتخب صدر کی ’’ناجائز دولت‘‘ کا سراغ لگانے کے لئے سوئس حکومت کو ایک چٹھی لکھیں۔ گیلانی صاحب نے اس ضمن میں مزاحمت کا رویہ اختیار کیا۔ اس کی وجہ سے ’’توہین عدالت‘‘ کے جرم میں اپنے عہدے سے فارغ کردئیے گئے۔انہیں گھر بھیجتے ہوئے ’’حیف ہے اس قوم پر ‘‘ کی گردان کے ساتھ ماتم کنائی بھی ہوئی۔ان کے جاں نشین راجہ پرویز اشرف نے بالآخر وہی ’’چٹھی‘‘ لکھ بھی دی۔آصف علی زرداری کے نام سے جائز یا ناجائز وجوہات کی بناء پر منسوب ہوئی ’’لاکھوں ڈالر‘‘ کی رقم قومی خزانے میں آج تک اگرچہ واپس نہیں ا ٓئی ہے۔اپریل2016سے اعلیٰ عدلیہ میں ایک اور معرکہ برپا ہوا۔پاکستان کا تیسری بار منتخب ہوا وزیر اعظم اس کی بدولت ’’سسیلین مافیا‘‘ کے انداز اپنانے کا مرتکب ٹھہرایا گیا۔ ’’حیف ہے اس قوم‘‘ کے غم میں مبتلا کھوسہ صاحب نے اپنے عہدے سے رخصت سے چند ہی ہفتے قبل پارلیمان کو مگر یہ حکم دیا کہ وہ ایک حساس ترین سوال پر حتمی فیصلہ کریں جس کا نوٹس انہوں نے تقریباََ ’’ازخود‘‘ لیا تھا۔اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کھوسہ صاحب نے فضا میں مکے لہراتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کے خلاف سخت ترین فیصلے کے لئے بھی ہمارے ذہنوں کو تیار کیا تھا۔فیصلہ آگیا تو اس میں لکھے چند کلمات نے ’’تھرتھلی‘‘ مچادی۔وطنِ عزیز میں حکمران اشرافیہ کے مابین کئی دہائیوں سے قائم طاقت کے توازن کو منطقی انداز میں دیکھیں تو لاہور ہائی کورٹ سے پیر کے روز آئے فیصلے کے بارے میں کوئی حیرانی نہیں ہونا چاہیے۔وقت اور ٹھوس حقائق کا تقاضہ ہے کہ ہم ٹھنڈے دل سے اپنے وطنِ میں ہر نوعیت کی اشرافیہ کے مابین کئی دہائیوں سے قائم طاقت کے توازن کا ادراک کر ہی لیں۔ اپنی محدودات کو پہچانیں۔ دوسروں کو دوش دینے کے بجائے ’’اسی تنخواہ‘‘ پر گزارہ کرنے کی عادت اپنائیں۔

مزیدخبریں