یہ کہانی پہلے ایک شیر کی ہے اور پھر ایک اور شیر کی ہے اور پھر پرجا کی ہے اور پھر شیروں کی بدلتی جون کی ہے پھر اس کہانی کے آخر میں ایک سوال اٹھے گا کہ کیا شیر بھی لومڑی ہو تا ہے ،جو مصالحت، مفاہمت اور عیاری کی ڈگر پر چلتی اور زمانہ شناس کہلائی جاتی ہے ۔ ایک تھا کشمیر کا شیر ،جس کا نام تھا شیخ عبداللہ ۔
اس شیرِکشمیرنے 1932 میں چوہدری غلام عباس کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے حقوق کی آواز بلند کرنے کے لئے جموں کشمیر مسلم کانفرس کی بنیاد رکھی جسے بعد میں سیکولر کے جھنڈے میں لپیٹ کر نیشنل کانفرس کیا اسی دور اندیشی کی وجہ سے بعد میں بھارت کے ساتھ کشمیر کا ناجائز الحاق کیا تو ضمیرپر کوئی بوجھ نہ پڑا ۔ اور نہرو سے دوستی نبھانے کی رسم مکمل ہو ئی کیا ہوا اگر کشمیر کے تمام راستے پاکستان کو جاتے تھے ، تمام دریائوں کا رخ پاکستان کی طرف تھا اور آبادی کی اکثریت مسلمانوں کی تھی مگر شیخ صاحب کا دل نہرو کا تھا سو دل کی سنی گئی ، کشمیریوں کا ایک دفعہ پھر سودا ہوا ۔شیر کو دلی اور نہرو سے دوستی کا انعام یہ ملا کہ 1947 سے 2002ء تک اس کی نیشنل کانفرس مختلف حالتوں میں جموں کشمیر پر حکمرانی کرتی رہی ، پہلے یہ شیر وزیر ِ اعظم جموں کشمیر بنا پھر بھارت کے ساتھ کشمیریوں کی خواہش کا سودا کرتے کرتے ، جموں کشمیر ایک خود مختار ریاست نہیں بلکہ بھارت کا ایک صوبہ بن کے رہ گیا تو اس کا عہدہ بھی وزیر ِ اعظم سے صوبے کا وزیر ِ اعلی تک رہ گیا مگر اب بھی اسے کوئی اعتراض نہیں تھا اور آج مودی کے کرم سے ۳۷۰ آرٹیکل کو قتل کر کے صوبے کی بھی انفرادی حیثیت ختم کر دی گئی تو شیر یہ دیکھنے کو موجود تو نہیں مگر اس کی نسلیں اور ان کشمیریوں کی نسلیں جن کی سودے بازی کرتے وہ پل بھر کو نہیں رکا تھا ، آج وہی بویا کاٹ رہی ہیں جو اس شیر نے ان کی راہوں میں کانٹوں کی صورت بو دیا تھا۔۔ لیڈر وہ نہیں ہو تا جو وقتی یا ذاتی تعریف اور مفاد کی خاطر فیصلے کرے ، حکمت اور فہم یہ ہے کہ لیڈر آنے والی نسلوں کے راستے سے کانٹے چن جائے ۔۔ کوئی پھول بو جائے ۔
شیر ِ کشمیر کے بعد ایک اورشیر ہے شیر ِ پنجاب ۔۔نواز شریف ۔ پنجاب نے ایسا شیر پیدا کیا کہ کشمیر کے شیر کی یا د آگئی ۔"عوامی راج زندہ باد" کا نعرہ کانوں کے لئے اب اجنبی نہیں ہے ۔ اور جب جمہوریت کا ڈھول گلے میں لٹکا کرادھر ادھر پھدکا جا تا ہے تو سوشلزم ، عوامی راج اور جمہوریت کی باتوں سے کس کافر کو انکار ہو سکتا ہے ۔ نعروں کا کیا ہے جو بھی بھلا سا لگے اٹھا لو اور اسے جلوسوں کا حصہ بنا دو ، وہ آواز ِ خلق خدا ہو جاے گا اور پھر وہی دیکھتے ہی دیکھتے نقارہ خدا بن جا ئے گا ۔ نعرے تو شیر ِ کشمیر کے بھی غلط نہ تھے مگر روس اور چین کے انقلاب کی موٹی موٹی باتیں دہرا دینے سے اور نیتوں میں کھوٹ رکھ دینے سے نہ کشمیر میں انقلاب آسکتا تھا اور نہ پاکستان میں مکمل جمہوریت آسکتی ہے کہ جمہوری لوگوں کے نعروں کاان کی نیتیوں سے کوئی تعلق ہی نہیں ۔۔ نیتیں کہتی ہیں صرف ذاتی اقتدار کو طول دو ، نیتیں کہتی ہیں اس پاکستان کو جتنا لوٹ سکتے ہو لوٹوں ، نیتیں کہتی ہیں جب اقتدار میں آتے ہو تو اپنے سب عزیز و اقارب کو خوب نوازو اتنا کہ پو رے پاکستان کے بچوں کی ہڈیوں اور خون کا گودا تک ان کے جسموں تک پہنچ جائے ۔
"ووٹ کو عزت دو ، انسان کو عزت دو ۔۔"سول سپریمیسی کی جھوٹی ہی سہی مگر جنگ تو لڑنے کا دعوی کر ہی رہے تھے مگر کتنے کھوکھلے تھے اور نہیں جانتے کہ ووٹ سے بھی پہلے ایک انسان کی اپنی عزت اور وقار ہو تا ہے تو جناب ِ شیر پہلے خود کو عزت دو ۔ مفاہمت اور مصلحت کے نام پر بار بار این او آر کر کے, بار بار اپنی کرپشن کے مقدمات کو معاف کروا کے بار بار حکومتوں کے مزے لوٹنے اس ملک میں نہ آتے ۔۔اور حکومتیں چھن جانے پر واپس عیش و عشرت کی زندگی میں نہ چلے جاتے ۔ ووٹ کو عزت دو ۔۔ وہ بڑا فوجی ووٹ کو تب ہی عز ت دینے دے گا جب ایک سیاستدان خود کو عزت دے گا ، اس عوام کو دے گا جس کے راج کا نعرہ لگا کر ترقی پسندوں کو ساتھ ملا لیا جاتا ہے ۔ کس دور میں عوام نے راج کیا ؟ بھٹو بادشاہ ، اس کی بیٹی رانی ، رائیونڈ پیلیس اور اس کے اندر رہنے والے مغلیہ خاندان سے ایک درجہ بھی کم کی زندگی گزار تے ہیں ۔ بادشاہوں کے زوال کا تو پھر کو ئی وقت ہوا کرتا تھا ، ان جمہوری اقدار کا ڈھول پیٹنے والوں کا تو کوئی زوال بھی نہیں ۔ نہ پیسہ ختم ہو تا ہے نہ جاہ جلال کہ آج کے ماڈرن دور کے شہنشاہ ِ عالم ہیں جو صرف اپنے اصلی آمرانہ چہرے کو چھپانے کے ہی ماہر نہیں بلکہ اپنے خزانوں اور جائیدادوں کو بھی محفوظ رکھنے میں طاق ہیں اس لئے ان کی گرد کو کوئی نہیں پہنچ سکتا کہ انہوں نے مغلون اور پرانے جمہوری بادشاہوں کی موتوں اور زوال سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔۔ اب ان کوخود کو خنوط کرنے کے سب طریقوں پر مکمل عبور ہے۔
اخلاقیات کی لاش پر جب سب قوم نے اجتماعی نمازجنازہ ادا کر دی ہے تو سر پر بوٹ پڑے یا چپل ۔۔ شیروں کی نسلیں تو ختم ہو گئیں اب سرکس والے جعلی شیروں کا زمانہ ہے تووہ خاکی وردیاں پہن کے آئیں یا شیروانیاں زیب تن کر کے گھومے پھریں کیا فرق پڑتا ہے۔ قوم کی اجتماعی موت تو ہو چکی ۔۔دفنانے کے طریقہ کار پر کیا بحث ؟