منفرد لب و لہجہ کےشاعر محسن نقوی کو دنیا سےرخصت ہوئے 24 برس بیت گئے ۔ان کی شاعری آج بھی اردوادب کے چاہنےوالوں کے دلوں میں زندہ ہے ۔
میرا ماتم اسی چپ چاپ فضا میں ہوگا
میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی
اردو ادب کے عظیم شاعر محسن نقوی 5 مئی 1947 کو ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے۔ محسن نقوی کا پیدائشی نام "سید غلام عباس نقوی " تھا لیکن عوام میں انہیں محسن نقوی کے نام سے شہرت ملی ۔ آپ نےملتان سے گریجویشن اورپھر جامعہ پنجاب سے اردو میں ایم اےکیا اوراسی دوران ان کا پہلامجموعہ کلام سامنے آیا۔بعدازں لاہورمنتقل ہوئےاورلاہورکی ادبی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا اور بے پناہ مقبولیت حاصل کی ۔
چنتی ہیں میرے اشک رتوں کی بھکارنیں
محسن لٹا رہا ہوں سر عام چاندنی
محسن نقوی ہفت روزہ شمارے ہلال اورروزنامہ "امروز" میں کالم نگار کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ محسن نقوی کی شاعری دل کو چُھولینے والی تھی اورآپ کرب کو اشعار میں پرونے کی بھی مہارت رکھتے تھے ۔ ان کی شاعری میں رومان اور درد کا عنصر نمایاں تھا لہٰذااسی تناظر میں ان کی رومانوی شاعری بھی خاصی مقبول تھی۔ان کی کئی غزلیں اور نظمیں آج بھی زبان زد عام ہیں اور اردو ادب کا سرمایہ سمجھی جاتی ہیں۔
ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی
محسن نقوی شاعری کے علاوہ مرثیہ نگاری میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں واقعہ کربلا کے استعارے جابجا استعمال کیے۔
غمِ حسین میں اک اشک کی ضرورت ہے
پھر اپنی آنکھ کو، کوثر کا جام کہنا ہے
ان کے شعری مجموعات میں بندِ قبا، ردائے خواب، برگِ صحرا، موجِ ادراک، ریزہ حرف، عذابِ دید، طلوعِ اشک، رختِ شب، فراتِ فکر، خیمہ جاں اور میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی شامل ہیں۔انہوں نے پاکستان کی سابقہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کے لیے ایک نظم "یااللہ یارسول ، بے نظیر بے قصور"لکھی۔ 1994میں انہیں صدراتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔اردو ادب کے اس روشن ستارے کو 15 جنوری 1996 کو نامعلوم دہشت گردوں نے گولیوں کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا اورانہیں ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا کر دیا۔