شام کے صوبے الحسکہ کے دیہی علاقے میں واقع "الہول" کیمپ میں امن و امان کی صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ یہاں سیرین ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کی حراست میں موجود داعش تنظیم کے جنگجوؤں کی بیویوں میں بعض شدت پسند خواتین قتل کی کارروائیوں کا ارتکاب کر رہی ہیں۔ اس چیز نے کیمپ میں رہنے والے ہزاروں شامی اور عراقی شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
مقامی سیکورٹی حکام نے حالیہ عرصے میں بڑھ جانے والی قتل کی کارروائیوں کے پیش نظر "الہول" کیمپ میں رہنے والوں پر سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں۔رواں سال کے آغاز کے بعد سے اب تک کیمپ میں تین افراد کو پراسرار حالات میں موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے۔سیکورٹی ذرائع نے بتایا کہ یہ تنیوں افراد ہلاک کیے جانے والے تینوں افراد عراقی شہریت رکھتے ہیں۔ ان میں ایک خاتون بھی شامل ہے جس کو گذشتہ ہفتے اس وجہ سے موت کی نیند سلا دیا گیا کہ وہ کیمپ میں "جہادی خواتین کے قوانین کی پاسداری" نہیں کر رہی تھی۔ خاتون کو گلا گھونٹ کر مار دیا گیا کیوں کہ وہ شرعی لباس پہننے کا اہتمام نہیں کر رہی تھی۔ اس چیز نے کیمپ میں جہادی خواتین کو غضب ناک کر دیا اور اس کے نتیجے میں انہوں نے اس خاتون کی جان لے لی۔
گذشتہ برس اکتوبر میں شام میں ترکی کی سرحد کے نزدیک سیرین ڈیموکریٹک فورسز کے زیر کنٹرول علاقوں پر ترکی کی فوج کے حملے کے بعد الہول کیمپ میں دانستہ قتل کی کارروائیوں میں نمایاں طور پر اضافہ ہوا۔ بالخصوص جب کہ ترکی کی فوج اور اس کے ہمنوا شامی گروپوں کے خلاف لڑائی میں شرکت کے سبب کیمپ میں سیکورٹی عناصر کی تعداد کم ہو گئی۔
الہول کیمپ کے منتظمین نے صورت حال کو ایک "المیہ" قرار دیا ہے۔ اُن کے مطابق کیمپ میں داعشی خواتین کے جرائم کا اکثر و بیشتر ارتکاب دیکھنے میں آ رہا ہے۔ یہ خواتین ہر اُس عورت کو قتل کرنے یا سزا دینے کی کوشش کرتی ہیں جو شرعی لباس پہننے یا نماز کو وقت پر پڑھنے کی پابندی کے حوالے سے ان کی ہدایات کی پاسداری نہیں کرتی ہیں۔کیمپ میں خواتین کو مختلف طریقوں سے موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے۔ ان طریقوں میں گلا گھونٹنا اور چُھریوں یا دیگر تیز دھار آلات کا استعمال شامل ہے۔
مقامی ذمے داران نے بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ الہول کیمپ میں خواتین اور بچوں کی نفسیاتی بحالی کے لیے کام کریں۔
یاد رہے کہ اس وقت ہزاروں داعشی خواتین الہول کیمپ میں مقیم ہیں۔ ان کی مجموعی تعداد 70 ہزار سے زیادہ ہے اور ان کا تعلق مختلف یورپی، عرب اور ایشیائی ممالک کے علاوہ امریکا اور کینیڈا سے بھی ہے۔