لاہور (اپنے نامہ نگار سے) لاہور ہائیکورٹ نے سول جج ساہیوال اور اسسٹنٹ کمشنر کے تنازعہ سے متعلق درخواست پر چیئرمین پیمرا کو طلب کر لیا اور چیف سیکرٹری پنجاب سمیت دیگر حکام کو عدالت میں پیش ہونے کا بھی حکم دیا ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ نادرا سے تصدیق کر کے رپورٹ دیں کہ احتجاج کرنیوالے کون تھے اور بینرز اٹھانے والے ملازمین کی تصویریں پیش کی جائیں۔ چیف جسٹس قاسم خان نے باور کرایا کہ عدلیہ کے بارے میں جو فقرہ لکھا گیا ہے کیا وہ درست ہے؟۔ کیا یہ عدلیہ اور انتظامیہ کو جو الگ کیا گیا تھا اس کے مطابق ہے؟۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ وہ لفظ ہے جس کے بارے میں حکومتوں کی خواہش ہے عدلیہ اور انتظامیہ کی ہم آہنگی ہوجائے کیا قانونی طور پر یہ لفظ درست ہیں؟۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے باور کرایا کہ مشکل سا لفظ انہوں نے لکھ دیا کہ جج صاحب کو کون سا پتہ چلنا ہے۔ ان الفاظ کے معنی گھوڑے اور گاڑی کے بارے میں استعمال ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مطلب انتظامیہ گھوڑا اور گاڑی اس کے پیچھے چلے، کیا یہ فقرہ توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتا؟ یہ فقرہ اس نیت سے نہیں لکھا گیا۔ اس معاملے پر چینلز پر پروگرام ہوئے ہیں، جو چینلز پر بیٹھ کر تبصرے کرتے ہیں ان کو قانون کا پتہ ہی نہیں ہوتا۔ تبصرہ کرنیوالوں کو پتہ ہی نہیں ہوتا اس نقطے پر اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کون سے آئے ہیں۔ چیف جسٹس نے افسوس کا اظہار کیا کہ جو سیاسی لیڈر چاہتا ہے وہ انٹرویوز میں عدلیہ کے بارے میں جو چاہے کہہ دیتا ہے۔ پتہ کریں ایک چینل کے پروگرام میں کہا گیا کہ تھپڑ مارنے والے کو عدلیہ میں سزا نہیں ہوتی۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ ان کو معلوم ہی نہیں کہ سزا قانون کے تحت دی جاتی ہے۔ عدالت از خود نہیں دیتی۔ عدالتی استفسار پر سرکاری وکیل نے بتایا کہ سرکاری افسران نے بیان دیا کہ انہوں نے کوئی ہڑتال نہیں کی۔ مزید سماعت 27 جنوری تک ملتوی کردی۔