وزیراعظم عمران خان نے دوبارہ واضح کیا ہے کہ بھارت کے غیر قانونی قبضے والے کشمیر میں جاری نہتے کشمیریوں کی نسل کشی کو ہر طرح سے اجاگر کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں 25لاکھ سے زائد قابض بھارتی شہریوں کو جس طور پر شناختی کارڈ دیے جا رہے ہیں اور انہیں مقبوضہ کشمیر کی زمین خریدنے کی اجازت دی جا رہی ہے وہ کسی بھی طور قابل قبول قرار نہیں دی جا سکتی ۔ پاکستان کی حکومت اور عوام اس ضمن میں اپنی سفارتی ،اخلاقی اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرتے رہیں گے۔ مبصرین کیمطابق بھارتی حکمرانوں کی سیاہ کاریوں کے منطقی نتیجے کے طور پر لگتا یہ ہے کہ ہمیشہ کی سیاہی بھارت کے مقدر میں لکھی جاچکی ہے کیوں کہ کشمیری اپنے خون سے قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیںتبھی تو محبوبہ مفتی اور فاروق عبداللہ سمیت کئی بھارت نواز حلقوں نے بھی اعتراف کیا ہے کہ ’’ 1947 میں ہم میں سے کچھ لوگوں نے دو قومی نظریے کا ساتھ نہ دے کر ایسی فاش غلطی کی ہے جس کا خمیازہ نجانے آنے والی کتنی نسلوں کو بھگتنا پڑیگا‘‘۔ مقبوضہ خطہ کے دیگر سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ و دیگر نے بھی لگ بھگ انہی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ مبصرین کے مطابق افراد کی غلطیوں سے تو شاید کسی حد تک صرف نظر کیا جا سکتا ہے مگر قوموں کی جانب سے اس نوع کی لغزشیں سنگین حالات کا باعث بنتی ہیں بقول شاعر
یہ وقت بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
مبصرین کی رائے ہے کہ ہندوستان 15 اگست 1947 کووجود میں آیا تو دنیا بھر کے انسان دوست حلقوں کو توقع تھی کہ یہ ملک شاید آگے چل کر محکوم قوموں کے علم بردار کے طور پر کام کریگا کیونکہ ہندو قوم لگ بھگ 1200 سال تک بڑی حد تک محکوم رہی ہے اس وجہ سے اسکے بالا دست طبقات کو بخوبی احساس ہو گا کہ غلام قو میں کس حد تک ذہنی ابتری کا شکار ہوتی ہیں مگر بھارتی حکمرانوں نے اپنی آزادی کے بعد اپنی روش سے ثابت کر دیا کہ ان کی بابت ابتداء میں جن خوش گمانیوں کا اظہار کیا گیا وہ سراسر خوش فہمی ہے۔ تبھی تو دہلی کے حکمران سوچے سمجھے ڈھنگ سے اپنی اقلیتوں کیخلا ف ریاستی دہشتگردی کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ محض سفارتی ،سیاسی یا مذہبی محاذ پر ہی نہیں چل رہا بلکہ زندگی کا کوئی شعبہ اس منفی روش سے محفوظ نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تحریک پاکستان کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کی۔ قائدنے بجا فرمایا کہ ’’ درحقیقت پاکستان تو اسی روز وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے ، ہندوستان کا پہلا فرد جب مسلمان ہوا تو وہ ایک جداگانہ قوم کا حصہ بن گیا اور ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آ گئی‘‘۔ دو قومی نظریہ کیا ہے؟ اسے سمجھنے کے لئے کسی افلاطونی ذہنیت یا ارسطو ہونا ضروری نہیں بلکہ یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہندو اور مسلمان ہزاروں سال ایک ساتھ رہنے کے باوجود مذہبی، معاشرتی اور ثقافتی لحاظ سے ایک دوسرے سے بالکل الگ تھلگ رہے ۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بھارت کے دیہی علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کی 94.9 فیصد اور شہری علاقوں میں 61.1 فیصد خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔دیہی علاقوں کی 54.6 فیصد اور شہری علاقوں کی 60 فیصد نے کبھی سکول کا منہ نہیں دیکھا۔دیہی علاقوں میں مسلم آبادی کے 0.8 اور شہری علاقوں میں 3.1 مسلم گریجوئیٹ ہیں اور 1.2 پوسٹ گریجوئیٹ ہیں۔یاد رہے کہ اگرچہ مغربی بنگال کی کل آبادی کا 27 فیصد مسلمان ہیں۔مگر سرکاری نوکریوں میں یہ شرح 4.2 % ہے۔آسام میں یہ شرح 40 % مگر نوکریاں 11.2% ،کیرالہ میں 20% آبادی کے پاس 10.4 فیصد سرکاری نوکری ہے ۔واضح رہے کہ بھارتی فوج اور خفیہ اداروں نے اپنے یہاں سے معلومات کے حصول کی اجازت ہی نہیں دی تھی مگر عام رائے یہ ہے کہ ان اداروں میں مسلم نمائندگی کی شرح کسی طور بھی 1.75 فیصد سے زائد نہیں۔
اس تصویر کا یہ رخ اور بھی بھیانک ہے کہ مہاراشٹر میں مسلمان کل آبادی کا 10.6 فیصد ہیں مگر یہاں کی جیلوں میں موجود قیدیوں کا 32.4 فیصد حصہ مسلمان ہے۔دہلی کی آبادی میں مسلمان 11.7 فیصد مگر جیلوں میں کل قیدیوں کا 27.9 فیصد،صوبہ گجرات کی جیلوں میں کل بند افراد کا 25.1 فیصد مسلمان ہے جبکہ آبادی میں یہ تناسب 9.1 فیصد ہے،کرناٹک کی جیلوں میں 17.5 فیصد مسلمان بند ہیں جبکہ آبادی میں یہ تناسب 12.23 فیصد ہے،مہاراشٹر کی جیلوں میں ایک برس سے زائد مدت سے قید افراد میں 40.6 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔بھارتی مسلمانوں کو اس عجیب صورتحال سے بھی دو چار ہونا پڑتا ہے کہ بی جے پی اور اس کے ہم نوا کہتے ہیں کانگرس نے مسلمانوں کو خوش کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے جبکہ کانگرس سمیت تمام سیکولر پارٹیاں، انڈین آرمی،خفیہ ادارے،پولیس ،میڈیا اور عدلیہ کا بڑا حصہ بھارت کے ساتھ ان کی وفاداری کو مشکوک سمجھتا ہے ۔بنکوں سے قرضہ ملنا تو دور کی بات اپنے آبائی علاقوں کے باہر کرائے پر دکان یا مکان دیا جانا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ایسے میں وطنِ عزیز کے سبھی حلقوں کو بھارتی مسلمانوں کی حالتِ زار کو سامنے رکھنا چاہیے اور خود احتسابی اور خود مذمتی میں حائل بہ ظاہر معمولی لیکن در حقیقت انتہائی اہم فرق ملحوظ رکھا جائے کہ با شعور اور زندہ قوموں کا یہی طریقہ ہوتا ہے۔ اس بابت اصل ذمہ داری مقتدر طبقات (بھلے ہی وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں)،سول سوسائٹی اور میڈیا پر عائد ہوتی ہے۔