پاکستانی ثقافت میں چائے کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ چائے تمام مشروبات کی مرشد ہے تو غلط نہ ہوگا۔ ہمارے ہاں ملکی وغیرملکی سیاست پر گرما گرم بحث، ٹاک شوز، سماجی رابطوں کے لیے ٹی ہاؤسز اور کارنرز کو نمایاں حیثیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مشاھدے میں آیا ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے گلیمرس سے بھرپور‘ آنکھوں کو خیرہ کرنے والے اشتہارات کے باعث ٹی وائیٹنر کا ٹرینڈ بہت مقبول ہو رہا ہے۔ مگر حیف! چائے کی چاہ کا یہ عالم ہے کہ پڑھے لکھے طبقے نے بھی غور کرنا مناسب نہیں سمجھا کہ برانڈ کے ٹی وائیٹنرز پر یہ لکھا موجود ہوتا ہے۔ ’’یہ صرف چائے کیلئے ہے، دودھ کا متبادل نہیں ہے‘‘۔ اس عبارت کے باوجود ہم پھر اس کو کیوں استعمال کرتے ہیں‘ اسکے اجزائے ترکیبی پر ریسرچ کیوں نہیں کرتے؟؟ دراصل مبہم اشتہارات غیر واضح ہدایات اور سب سے بڑھ کر ٹی وائیٹنر کے نقصانات کے بارے میں شعور و آگاہی کی کمی کی وجہ سے عام لوگ ٹی وائیٹنر کو آنکھیں بند کر کے استعمال کر رہے ہیں۔ مزید برآں افسوسناک معاشرتی پہلو یہ ہے کہ مارکیٹ میں ٹی وائیٹنر کے جعلی پروڈکٹس سرِ عام فروخت ہو رہے ہیں جو کہ شہروں سے دور بستیوں میں بنائے جاتے ہیں اور نہایت شاطرانہ انداز میں ان کی پیکنگ بھی کی جاتی ہے حتیٰ کہ عقلی رویہ رکھنے والے صارفین بھی دھوکا کھا جاتے ہیں۔ ان ٹی وائیٹنرز میں غذائی اجزاء بھی خالص دودھ کی نسبت نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ اس میں کولیسٹرول کی سب سے خطرناک قسم آکسیڈائزڈ کولیسٹرول پایا جاتا ہے جو خون کی نالیوں میں خون کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ جس سے دل کی بیماریوں کا نقطہء آغاز ہوتا ہے۔ ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ ٹی وائیٹنر کا مسلسل استعمال بسا اوقات کینسر کا باعث بھی بن جاتا ہے۔ قارئین! آپ سوچ رہے ہونگے کہ اگر یہ اتنے ہی مضرِ صحت ہیں تو ان کے اشتہارات پر بھی پابندی عائد ہونی چاہیے کیونکہ یہ عوام کو گمراہ کر رہے ہیں جو کہ غیر اخلاقی اور مجرمانہ سرگرمی ہے لیکن ہمارے چند ادارے مخصوص مافیا کے ہاتھوں بے بس ہیں۔ اصل بے بسی کا مظاہرہ تو تب ہوتا ہے جب مکھن کے اوپر درج ہوتا ہے یہ مکھن نہیں ہے اور اشتہارمیں دکھایا گیا ہے کہ بچوں کے بڑھنے کی صلاحیت کو یہ مکھن بڑھاتا ہے۔ یعنی بھاری رقوم ادا کر کے کسی بھی مہلک شے کو لبادہ اوڑھا کر اس کی مارکیٹنگ ہو سکتی ہے۔ تعجب ہے!!!ٹی وائیٹنر کی شکایات کے ضمن میں کورٹ کی جانب سے کئی بار نوٹسسز بھجوائے گئے کہ پیکٹ کے 15ویں حصے پر واضح الفاظ میں لکھا جائے کہ یہ دودھ نہیں ہے ورنہ ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائیگی پھر یوں ہوا کہ کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے یعنی 2017ء میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کے احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے پیکٹوں پر ان کمپنیوں نے پرنٹ کرنا شروع کر دیا جن کو شوکاز نوٹسسز بھجوائے گئے تھے۔ قارئین یاد رہے کہ ماضی میں ان ٹی وائیٹنرز کے علاوہ دودھ کے ڈبوں میں بھی سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں انکشاف کیا گیا تھا کہ دودھ میں یوریا اور غیر معیاری اشیاء شامل ہیں۔ یہاں تک کہ بھینسوں کو لگائے جانے والے ٹیکے بھی ضبط کرنے کا آرڈر دیا گیا۔ ڈرگ انسپکٹرز نے مارکیٹوں میں جب چھاپے مارے تو مارکیٹوں میں بڑی تعداد میں موجود ٹیکوں کی چشم کشا رپورٹ سامنے آئی۔ ناقص اشیاء کے استعمال سے جب لوگوں کی طبیعتیں بگڑنے لگیں تو پنجاب فوڈ اتھارٹی نے متعدد بارے سروے کیے ان سرویز کے اعداد وشمار نے ایک بڑی غلط فہمی کو ٹارگٹ کیا کہ نہ صرف دیہات بلکہ شہروںمیں بھی ایک واضح اکثریت لاعلمی میں ٹی وائیٹنر کو دودھ سمجھ کر استعمال کرتی ہے۔ اب اس پر بھی سوال اٹھتا ہے کہ عوام الناس اس کو متوازن غذا کیوں سمجھتے ہیں؟ میرے نزدیک اسکی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مہنگائی اور قوتِ خرید میں مسلسل کمی کے باعث صارفین کی ترجیحات و کوالٹی میں بھی تبدیلی واقع ہوئی ہے، بڑھتی قیمتوں اور آمدن کے مابین فرق کی وجہ سے عوام کا ناقص خوراک کی طرف رحجان بڑھ رہا ہے۔ غریب اپنے شیر خوار بچوں کی بھوک کو بہلانے کے لیے ٹی وائیٹنر کو خریدنے پر مجبور ہیں۔ اگر یہی حال رہا تو مستقبل قریب میں پاکستان جو کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے اس میں معیاری خوراک پر پلنے والے لاغر بچوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ جائے گی۔ 21اکتوبر 2020 میں پاکستان میں نیشنل نیوٹریشن سروے کی رپورٹ برائے سال 2018-19 جاری کی گئی جس کے مطابق پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر ہر 10میں سے 4بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ حکومت کی جانب سے اسٹنٹنگ سے نومولود بچوں کو محفوظ بنانے کیلئے ’’احساسِ نشوونما‘‘ پروگرام کا اجراء انتہائی خوش آئند ہے۔ اس کا ثمر اسوقت حاصل ہو سکے گا جب اس پر سنجیدگی سے عملدرآمد کیا جائے گا۔ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں مستقبل میں قوم کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کیلئے شیر خوار بچوں کا وظیفہ مقرر کیا گیا تھا ان لاء ز کو یورپ نے اپنایا جن کی واضح ترقی کے آج سب گرویدہ ہیں۔
’’ٹی وائٹنر… رگوں میں اترتا زہر!!!‘‘
Jan 15, 2021