غزل

Jan 15, 2021

حیدر قریشی

جرمنی

حیدرقریشی

روشنی کا استعارہ کر لیا
دل نے ہر آنسو ستارا کر لیا
بے وفا دنیا سے کچھ تو نبھ گئی
ساتھ کیا تھا بس گزارا کر لیا
گلستاں اس نے کیا تھا آگ کو
ہم نے شبنم کو شرارہ کر لیا
کم نہیں ہم بھی ثمود و عاد سے
کیوں لحاظ آخر ہمارا کر لیا
تیری وحدت سے سمجھ پائے تجھے
اور کثرت میں نظارہ کر لیا
کون ہے پھر اب مِرے دکھ کا سبب
خواہشوں سے تو کنارا کر لیا
آج حیدر موڈ ہی کچھ اور تھا
سو غزل میں استخارہ کر لیا

مزیدخبریں