اومیکرون شکل بدل کر انسانی پھیپھڑوں کے بجائے حلق پر حملہ آور

رانا فرحان اسلم
 کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون نے دنیا بھرمیں ایک بار پھر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اومیکرون کے بڑھتے ہوئے کیسز سے دنیا بھر میں شدید تشویش پائی جاتی ہے ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر سب ہی کرونا وائرس کی اس نئی قسم سے خوف زدہ ہیںکرونا کے اس نئے ویرینٹ کی 26نومبر کو جنوبی افریقہ میںتصدیق ہوئی اور اسکے بعد اسکے پھیلاؤ میں کافی تیزی دیکھنے میں آرہی ہے ۔دنیا کے تقریبا ڈیڑھ سو ممالک میں اومیکرون پھیل چکا ہے اسکے پھیلاؤ کیوجہ سے دنیا کے کئی ممالک نے ایک بار پھر سفری پابندیاں عائد کر دیں ہیں جبکہ یورب کے چند ممالک بالخصوص ہالینڈ میں اومیکرون کے ممکنہ خطرات کے پیش نظر لاک ڈاؤن بھی لگ چکا ہے دنیا بھر میں اومیکرون کے تیزی سے پھیلاؤ کیوجہ سے عالمی ادارہ برائے صحت (WHO) نے اسے ''ویرینٹ آف کنسرن'' قرار دیدیا ہے۔ جسکی وجہ سے یہ بتائی جا رہی ہے کہ اس میں پچاس کے قریب میوٹیشنز ہیںجن کا پھیلاؤ بہت تیزی سے ہورہاہے۔
 اومیکرون کرونا وائرس کے ویرینٹ ڈیلٹا کی نسبت چار گنا زیادہ طاقتور ہے اسی وجہ سے پاکستان میں بھی حفاظتی اقدامات کے پیش نظر نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر(این سی او سی) کیجانب سے تیس سال سے زائد عمر کے افراد کو کرونا وائرس کی ویکسین کی بوسٹر ڈوز لگوانے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر(این سی او سی)کی کور کمیٹی کے رکن اور ہیلتھ سروسز اکیڈمی پاکستان کے وائس چانسلر ڈاکٹڑ شہزاد علی خان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے بعد ایلفا،بیٹا گیمااور ڈیلٹا ویرینٹس کے بعد یہ قیاس کیا جا رہا تھا کہ اسکے مزید ویرینٹس بھی آئینگے ۔جسم کا مدافعتی نظام اسکا دفاع نہیں کرسکتا پرانے وائرس کی نسبت اس ویرینٹ کیوجہ سے انفیکشن میں اضافہ سے جسم کی قوت مدافعت متاثر ہوسکتی ہے پاکستان میںاومیکرون وائرس کی تشخیص کیلئے قومی ادارہ برائے صحت (NIH) اور آغا خان لیبارٹریز کام کر رہی ہیںاسکی علامات بھی پچھلے وائرس جیسی ہی ہیں لیکن اس وائرس کا شکار افراد کو تھکن زیادہ محسوس ہوتی ہے اس وائرس کے حوالے سے گلوبل گائیڈ لائینز ییہی ہیں کہ اسکا ریپڈ ایسسمنٹ ٹیسٹ(RAT)کیا جائے اور بالخصوص ائیر پورٹس پر یہ ٹیسٹ انتہائی ضروری ہے  2020ء  کی شروعات میں جب پاکستا ن میں وباء کی لہر آئی اور کرونا کا ''وائلڈ ووہان وائرس''آیا تھا تو اس وقت سے ہی دنیا میں قیاس آرائیاں شروع ہو گئی تھی کہ اس وائرس کی کئی سو میوٹیشنز آئینگی ۔  اب صورتحال یہ ہے کہ اومیکرون کے پھیلاؤ کے باوجود دنیا بھر میں کرونا وائرس کے شکار افراد کی شرح میں نمایاں کمی آئی ہے اور شرح اموات میں بھی دس فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
 اومیکروں کیسز افریقہ میں بہت تیزی سے اوپر گئے لیکن اسی تیزی سے نیچے آئے اسی طرح امریکا یورپ کینیڈا میں بھی صورتحال ایسی ہی دیکھنے میں آئی اومیکرون ایک سے دوسرے شخص میں منتقل بہت جلدی ہوتا ہے لیکن  طبی ماہرین کے مطابق یہ زیادہ مہلک وائرس دیر پا نہیں ہوتا شرح اموات  کے ساتھ یہ وائرس اپنے آپکو خود بخودختم کر لیتا ہے کرونا وائرس کیخلاف ویکسین کے علاوہ اینٹی وائرل ادویات بھی مارکیٹ میں آچکی ہیں، شایددنیا کے ترقی پذیر ممالک میںاتنا مہنگا علاج ومعالجہ نہیں چل سکے گا۔
ڈاکٹر شہزاد علی خان کے مطابق شہریوں کیلئے ایک ہی ویکسین کی دو ڈوز لگوانا از حد ضروری ہے دنیا بھر میں مکس اینڈ میچ کے تجربات بھی ہوئے ہیں لیکن اتنا زیادہ کامیاب نہیںہوسکے شہریوں کو یہی چاہیے کہ وہ جس ویکسین کی پہلی ڈوز لگوائیں دوسری دوز بھی اسی کی لگوائیں اور بوسٹربھی اسی ویکسین کا لگوایا جانا چاہیے جسکی دو ڈوزز پہلے لگ چکی ہیں۔پاکستان میں جن ویکسینز کا اچھا رزلٹ آیاہے وہ چائنیز ویکسینز ہیں۔دوسری جانب ایسے شواہد مسلسل سامنے آرہے ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون سے پھیپھڑوں کی بجائے گلے کے متاثر ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ بظاہر اومیکرون قسم بہت زیادہ متعدی ہے مگر کورونا کی دیگر اقسام کے مقابلے میں کم جان لیوا ہے یہ عندیہ حالیہ 6 تحقیقی رپورٹس میں سامنے آیا جن میں سے 4 رپورٹس 25 دسمبر کے بعد پیش کی گئیں اور ان سب میں دریافت ہوا کہ اومیکرون سے مریضوں کے پھیپھڑوں کو اس طرح نقصان نہیں پہنچتا جس طرح ڈیلٹا اور وائرس کی دیگر اقسام پہنچاتی ہیںیہ سب تحقیقی رپورٹس اب تک کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئی ۔مگر لندن کالج یونیورسٹی کے وائرلوجی پروفیسر ڈینان پلائے نے بتایا کہ اومیکرون میں موجود تمام میوٹیشنز سابقہ اقسام سے مختلف ہیں جس کے نیتجے میں اس کی مختلف خلیات کو متاثر کرنے کی صلاحیت تبدیل ہوئی انہوں نے بتایا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ یہ نئی قسم نظام تنفس کی نالی کے اوپری حصے یعنی حلق کے خلیات کو زیادہ متاثر کرتی ہے اور پھیپھڑوں کے مقابلے میں وہاں اپنی نقول زیادہ تیزی سے بناتی ہے۔ لیور پول یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں چوہوں کو اومیکرون سے متاثر  کر کے نتائج لئے گئے ہیں۔ ان چوہوںکا جسمانی وزن کم ہوگیا مگر وائرل لوڈ کم تھا جبکہ نمونیا کی شدت بھی کم تھی اور چوہے بہت تیزی سے ریکور ہوئے ۔اسی طرح دوسری تحقیق بیلجیئم کی لیووین یونیورسٹی کی Neyts Lab کی تھی جس میں بھی اسی طرح کے نتائج جانوروں میں دریافت ہوئے یعنی وائرس کی دیگر اقسام کے مقابلے میں پھیپھڑوں میں کم وائرل لوڈمحققین نے بتایا کہ ممکنہ طور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نیا وائرس جانوروں کی بجائے انسانوں کو زیادہ بہتر طریقے سے متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نظام تنفس کی نالی کے اوپری حصے کو ہدف بناتا ہے۔امریکا کے محققین کی جانب سے تحقیق میں بتایا گیاچوہوں کا جسمانی وزن کم ہوگیا مگر پھیپھڑوں میں وائرل لوڈ کم تھایونیورسٹی آف گلاسگو کے سینٹر فار وائرس ریسرچ کی تحقیق میں بھی ایسے شواہد دریافت ہوئے جن سے عندیہ ملتا ہے کہ اومیکرون نے جسم میں داخل ہونے کا طریقہ بدل لیا ہے۔
 ہانگ کانگ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں  دریافت کیا گیا تھا کہ پھیپھڑوں میں اومیکرون سے ہونے والی بیماری شدت دیگر اقسام کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں ویکسنیشن کرانے کے بعد اومیکرون سے متاثر ہونے والے مریضوں کے خون کے نمونوں کی جانچ پڑتال میں دریافت ہوا کہ یہ نئی قسم ویکسینز سے بننے والی مدافعت پر حملہ آور ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں بھی اومیکرون سے بچاؤ کیلئے حکومتی سطح پر اقدامات ہو رہے ہیں۔ حکومت پاکستان نے اومیکرون سے زیادہ متاثرہ ملکوں میں سے متعدد  شہریوں پر سفری پابندیاں عائد کرتے ہوئے انکے داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے اورملک کے تمام  ائیر پورٹس پر ریپڈ ایسسمنٹ ٹیسٹ(آر اے ٹی )اور پی سی آر ٹیسٹ کو لازم قراردیدیا ہے دوسری جانب پاکستان میں تیس سال تک کے افراد جہنوں نے کرونا وائرس ویکسین کی دونوں دوزز لگوا لی ہیں انہیں چھ ماہ کی مدت پوری ہونے کے بعد بوسٹر ڈوز لگوانے کیلئے بھی اہل قرارددیدیا گیا ہے۔نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی)کے سربراہ اور وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ ملک میں کورونا وائرس کی نئی لہر کے آغاز کے واضح شواہد نظر آرہے ہیںاپنی ایک ٹوئٹ میں اسد عمر کا کہنا تھا کہ مثبت نمونوں کی جینوم سیکوئنسنگ سے کورونا کی اومیکرون قسم میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور ایسا خاص طور پر سے کراچی میں ہورہا ہے اسد عمر نے عوام کو یاددہانی کروائی کہ وہ وائرس سے بچا کے لیے ماسک کا استعمال کریںواضح رہے کہ گزشتہ 3 روز سے ملک میں کورونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح ایک فیصد سے زائد رہی ہے۔ این سی او سی کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مثبت کیسز کی شرح 1.30 فیصد رہی ملک بھر سے کورونا وائرس کی اومیکرون قسم کے مقامی منتقلی کے کیسز سامنے آنے کے بعد ملک میں کورونا کیسز کی شرح مسلسل 3 روز سے ایک فیصد سے زائد ہے اس سے قبل ملک میں تقریبا 2 ماہ تک کورونا کیسز کی شرح ایک فیصد سے کم رہی تھی اور یہ خیال کیا جارہا تھا کہ شاید ملک کو دربارہ وائرس سے متعلق بندشوں کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔2020 ء کے بعد سے کورونا کی لہر کے دوران2 لاکھ 57 ہزار 24 افراد اس سے صحت یاب ہوئے جبکہ 28 ہزار 941 افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا ہے کہ پنجاب میں اومی کرون کے کیسز کی تعداد 170 ہو گئی، لاہور میں کورونا وائر س بھی  پھیلنے لگا، جس کے مثبت کیسز کی شرح 3 اعشاریہ 8 فیصد ہو گئی ہے وزیرِ صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا کہ اومیکرون کی وجہ سے انفیکشن بڑھ رہا ہے۔ شادی اور دیگر تقریبات میں حفاظتی اقدامات مدِنظر نہیں رکھے جا رہے ہیں
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)کے سربراہ ٹیڈروس نے کہا ہے کہ 2022 میں کورونا وائرس کو شکست دے دیں گے سال نو کے موقع پر ڈبلیو ایچ اوکے سربراہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر ممالک کورونا کے پھیلا کو روکنے کے لئے مل کر کام کریں تو 2022 میں اس وبا سے نجات حاصل کرلی جائے گی ۔ اس لیے اگر ممالک مل کر کام کریں اور ویکسین کی صحیح تقسیم کریں تو اس وبا پر قابو پا لیا جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن