آج بھارت کے حالات پر نظر دوڑائیں تو نظر آئے گا کہ مسلمانوں کو کاٹا جا رہا ہے اس کی بنیادی وجہ مذہبی تمدنی اور ثقافتی فرق ہے جو ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان ہمیشہ قائم رہا ہے۔ہندوئوں نے اپنے قول و فعل حکمت عملی اور طریقہ کار سے ممکنہ حد تک ثابت کر دکھایا کہ مسلمانوں کو ہندوئوں سے انصاف اور رواراری کی توقع رکھنا بیکار ہے۔ اپنے اختیارات مسلمانوں کے خلاف اس انداز سے استعمال کیے کہ انہیں یقین ہو گیا ہندو مسلمانوں کے درپے ہو جائیں گے۔ ہندوئوں کی تنگ نظری اور تعصبانہ رویہ نے مسلمانوں کو اپنا انداز فکر تبدیل کرنا پڑ رہا ہے۔ ہندو اسلامی اصولوں اور اداروں کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ مسلمان اپنی ذات میں ایک قوم ہیںجو اپنے اصولوں انداز فکر اور فلسفہ حیات کی وجہ سے دیگر اقوام سے مختلف اور ممتاز ہیں۔بھارت کے مسلمان دوسری قوموں سے مختلف ہیں۔ مستقل اور ملت طریق پر ایک علیحدہ قوم ہیں۔ کیونکہ دونوں کی تہذیب معاشرت اور مذہب کی قدریں جدا جدا ہیں۔ ان میں کوئی بھی قدر مشترک نہیں ہے اور ہندوئوں کی تنگ نظری زندگی کے کسی میدان میں مسلمانوں کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے چنانچہ ان کی مفکرانہ فطرت نے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔مسلم معاشرے کی صحت کا تقاضا یہ ہے کہ اسلامی اصولوں اور قدروں کو ان کی خالص پاکیزگی کے ساتھ قائم رکھا جائے اور ہندوئوں سے آلودہ ہونے سے بچا جائے مسلمانوں کی علیحدہ ہستی کو برقرار رکھا جائے۔ دہلی میں مسلم اقتدار کو دوبارہ زندہ کرے کے لیے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا ہے۔ ہندو حکمران میں اب کسی خدمت کو انجام دینے کی صلاحیت باقی نہیں رہی۔ ملک میں ان کا رویہ محض خون چوسنے والے کیڑوں کی طرح ہے اور اقدام بالجبر کے واقعات زیادہ سے زیادہ شدید ہونے لگے۔ یہ صورتیں بھارت کے وجود ہی کو ختم کر دینے کے درپے ہیں۔ مگر اس کے باوجود بھارت کے خود غرض حکمران اپنی سرگرمیوں سے باز نہیں آئے۔ عام لوگ حیران و پریشان ہین کوئی امید کوئی مستقبل اور کوئی علاج نظر نہیں آتا۔ یہ تمام مناظر بھارتی انتہا پسندہندوئوں کی متعصبانہ پالیسی کا نتیجہ ہیں جو بھارت سے ہندو ازم کے علاوہ کسی بھی مذہب اور کمیونٹی کا نام و نشان مٹانے پر حملے ہوتے ہیں۔ اسی شدت پسندی کے باعث بھارت کی دیگر اقلیتیں بھی سراپا احتجاج ہیں۔
قائد اعظم نے جب یہ اعلان فرمایا کہ اس برصغیر میں دو بڑی قومیں ہندو اور مسلمان آباد ہیں تو آپ نے ایک ایسی حقیقت کی نشاندہی کی جو کہ غیرجذباتی مطالعہ سے عیاں ہو جاتی ہے۔ قومیت کی تعریف چاہے جس طرح کی جائے مسلمان اس تعریف کی رو سے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اور اس لیے اس بات کے مستحق ہیں کہ مسلمان قوم اپنی روحانی اخلاقی تمدنی اقتصادی معاشرتی اور سیاسی زندگی کو کامل ترین نشو نما بخشے اور اس کام کے لیے طرق عمل اختیار کرے جو اس کے نزدیک بہترین ہو۔ زندگی کے ہر شعبہ میں مسلمان ہندوئوں کے استعمال سے بچ سکیں اور ایسے معاشرے کی بنیاد رکھی جائے جس میں وہ اسلام کے لازوال اصولوں ک یروشنی میں اپنی زندگی مرتب کر سکیں۔ بھارت کے مسلمانوں کی بقا اس میں ہے کہ مسلمانوں کو اقلیت کے زمرے میں شمار کرنا غیر حقیقت پسندی کے مترادف ہے۔ بھارت کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ حقیقت پسندی کا ثبوت دیں اور مسلم قوم اپنا پیدائشی حق استعمال کر کے مستقبل کے متعلق فیصلہ کرنے کا حق تسلیم کریں۔ آزادی سے سکون کا سانس لے سکیں اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کی ضمانت مہیا کر سکیں۔ مسلمان اپنے آپ کو ایک قوم سمجھتے تھے ایک ایسی قوم جو ایک مخصوس تمدن ثقافت اور تہذیب کی وارث ہے۔ بھارت میں طویل قیام کے باوجود مسلمانوں نے اپنی انفرادیت نہ کھوئی اور مسلمانوں کے رہن سہن کے انداز رسوم و رواج مسلمانوں کے نقطہ نظر سے ثقافتی مسئلہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ مسلمانوں کی ایک علیحدہ وفاق ہی ایک ایسا راستہ ہے جو مسلمانوں کے امن و سلامتی کا ضامن ہو سکتا ہے اور جس کوی بدولت مسلمانوں کو ہندوئوںکے غلبہ سے محفوظ کر سکتے ہیں۔
معاشی میدان میں بھی مسلمان قوم شدید مسائل سے دو چار ہے ہندو نہ صرف مسلمانوں کی تہذیب و تمدن پر چھا جانا چاہتے ہیں بلکہ معاشی میدان میں بھی مسلمانوں کا استعال کر رہے ہیںتا کہ مسلمانوں کو اپنے پائوں پر کھڑے ہونے نہ دیا جائے ہندوئوں نے مسلمانوں کی نسبت مغربی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی ہے جس کی وجہ سے وہ صنعت وحرفت و تجارت اور سرکاری ملازمتوں میں چھا گئے اور مسلمان زندگی کی دوڑ میں ہندو ئوں سے پیچھے رہ گئے۔ سرکاری اور نیم سرکاری نوکریعوں میں مسلمانوں کا تناسب اپنی تعداد کے لحاظ سے بہت کم ہے پھر وہ چھوٹے چھوٹے عہدوں پر فائز ہیں اگرچہ مسلمانوں نے تعلیم کی طرف توجہ دینی شروع کی لیکن تعلیمی اداروں کی کمی محدود مالی وسائل حکومت کی عدم توجہ اور مستقبل کے غیر یقینی ہونے کی وجہ سے وہ تعلیمی میدان ہندوئوں کے برابر نہ آسکے۔ اگر کوئی تعلیم یافتہ مسلمان ہوتا ہے تو اسے ترقی کے اتنے مواقع حاصل نہیں ہیں جتنے ہندوئوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ چونکہ اعلیٰ عہدوں پر ہندو ہیں۔ وہ بھرتی اور ترقی کے وقت جب بھی موقع ملتا مسلمانوں سے نا انصافی کرتے ہیں۔غریب مسلمان ہندو جاگیرداروں کے ہتھکنڈوں اور ظلم کا شکار ہیں جو کہ مسلمانوں کی محنت کا پھل ان سے چھین لیتے ہیں غرضیکہ زندگی کے ہر پہلو میں ہندو مسلمانوں کو پیچھے دھکیل کر اُن پر چھا جانا چاہتے ہیں۔مسلمانوں کی خواہش ہے کہ وہ اسلامی قدروں کے مطاپق زندگی بسر کریں اور ساتھ ساتھ معاشی میدان میں بھی آگے بڑھیں۔ ہندواُن کی راہ میں روڑھے اٹکا راہے ہیں تاکہ مسلمانوں کی حلات مزید خراب ہو جائے۔ہندوئوں نے اپنے قول و فعل حکمت عملی اور طرقہ کار سے ممکنہ حد تک ثابت کر دکھایا کہ مسلمانوں کو ہندوئوں سے انصاف کی توقع رکھنا بیکارہے۔ اپنے اختیارات مسلمانوں کے خلاف اس انداز سے استعمال کئے کہ اُنہیں یقین ہو گیا ہندو مسلمانو ں کے درپے ہو جائیں گے۔ہندوئوں کی تنگ نظری اور تعصبانہ رویہ نے مسلمانوں کے ذہنوں پر گہرا اثر ڈالا۔ اس رویہ کی بنا پر مسلمانوں کو اپنا انداز فکر تبدیل کرنا پڑ رہا ہے۔ہندو اسلامی اصولوںاور اداروں کو ختم کرنا چاہتے ہیں، مسلمان اپنی ذات میں ایک قوم ہیں۔جو اپنے اصولوں ، انداز فکر اور فلسفہ حیات کی وجہ سے ہندوئوں سے مختلف اور ممتاز ہے۔تاریخی اور ثقافتی ورثہ تصور حیات اور مقصد حیات ایک دوسرے سے اتنے مختلف ہیں کہ مشترکہ معاشرت وجود میں آ سکی اور نہ واحد قومیت کا تصور ہی فروغ پا سکا ہندوئوں اور مسلمانوں کی تہذیبیں علیحدہ علیحدہ طورپر زندہ ہیں۔بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی تہذیب و تمدن اور زبان کا بول بالا رہا اور معاشرہ میں ان کی تاریخی فراعات یافتہ حیثیت قائم رہی تھی۔ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو اپنی حیثیت اور تہذیبی شناخت کو سنگین خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔بھارتی افواج کا شیطانی روپ بھی دنیا کے سامنے بے نقاب ہو گیا ۔
بھارت نے پاکستان میںبم دھماکوں اور قتل غارت گری برپا کرنے کا حربہ استعمال کیا جس سے نہ تو ہمارے فوجی محفوظ رہے اور نہ ہی تمام شہری ہمارے بازاروںیا عبادت گاہیں یہاں تک کہ عورتیں، بچے ، بوڑھے، مسلم اور غیر مسلم کوئی بھی ان حملوں سے محفوظ نہیں رہا ۔ یہ ہو وہ شیطانی دھوکہ اور سازش کہ جس کی عمارت انسانوں کی لاشوں پر کھڑی کی گئی ہے اور مسلمانوں کے خون سے اس عمارت کی بنیادوں کو پختہ کیا گیا ہے۔یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ کشمیر اور بھارتی مسلمان پاکستان کے لوگوں کو بھارتی انتہا پسندی سے سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے۔