ان ذیلی کمپنیوں کی آمدنی کو ٹیکس سے مستثنی کردیا گیا ہے ۔ بشرطیکہ منافع کا 90فیصد ٹرسٹیز REIT) میں سرمایہ کاری کاروں ) میں تقسیم کیا جائے ۔ منی بجٹ کے ذریعے ، ایف بی آر نے بینکوں اور مالیاتی اداروں سے ان افراد کی فہرست کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا اختیار طلب کیا جو پورا ٹیکس نہیں دیتے ۔ چنانچہ ان افراد کے ہر کیلنڈر مہینے کے دوران کھولے گئے یا دوبارہ نامزد کیے گئے کاروباری اکاوئنٹس کی تفصیلات لی جاسکتی ہیں ۔ اس ترمیم سے ٹیکس چوری کی حوصلہ شکنی ہوگی ۔ سپلیمنٹری فنانس بل کے علاوہ ، حکومت نے اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ 2021بھی متعارف کرایا ہے ۔ اس کا مقصد مروجہ عالمی طریقوں کے مطابق ، اسٹیٹ بینک (SBP)کو عملی اور انتظامی خودمختاری دنیا اور اس کے احتساب کو مضبوط بنانا ہے ۔ اگر چہ ، آئی ایم ایف کے مشورے پر سہی لیکن یہ درست سمت میں ایک اور قدم ہے ۔ ایک آزاد بورڈا سٹیٹ بینک کا انتظام کرے گاجس کے لیے بورڈ کے نان ایگزیکٹو ڈائریکٹرز ، گورنرز ، ڈپٹی گورنرز اور مانیٹری پالیسی کمیٹی کے بیرونی اراکین کا تقرر صدر / حکومت پاکستان پانچ سال کی مدت کے لیے کریں گے ۔(دوسری مدت کے لیے اہل)۔عدالتی فیصلوں کی رو سے کسی سنگین بدانتظامی وجہ سے تقرری کرنے والی اتھارٹی کے ذریعے انہیں ہٹایا جاسکتا ہے ۔ حکومت اسٹیٹ بینک سے قرض نہیں لے گی اور مرکزی بینک کا مقصد مہنگائی کو کنٹرول کرنا ، مالی استحکام لانا اور ترقی کو فروغ دینے کے لیے حکومت کی معاشی پالیسیوں کی حمایت کرنا ہوگا ۔ اس بل کو مزید بہتر بنانے کے لیے حکومت درمیانی مدت کی کی افراط زر کاٹارگٹ مقرر کرسکتی ہے ۔ (انفراط زرکی وضاحت کرنا ضروری ہوگا)۔ اسی طرح اہداف کی تکمیل نہ کرنے کے احتساب کے طریقہ کار کو پارلیمنٹ میں سالانہ رپورٹ پیش کرنے کے علاوہ مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہنگامی حالات میں قرض لینے کے لیے لچک فراہم کرنے کے لیے بالکل قرض نہ لینے کی شق کو تبدیل کیا جانا چاہیے ۔ (جبکہ ہنگامی حالات کی وضاحت بھی کردی جانے چاہیے ) ۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت ٹیکس میں چھوٹ سے ٹارگٹڈسبسڈیز کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ ریفنڈ اور ایڈجسٹمنٹ کے بعد ، منی بجٹ کے ذریعے اکٹھے ہونے والے ریونیو سے 33 ارب روپے ٹارگٹڈ سبسڈیز کے لیے مختص کیے گئے ہیں ، جس میں بچوں کے فارمولہ دودھ کے لیے 10.5بلین روپے ، (کپاس ، مکی ، دیگر ) بیجوں کے لیے 7.86بلین روپے اورپولٹری ، مویشیوں اور فش فیڈ کے خام مال اور تیاری کے لیے 6.1بلین روپے شامل ہیں ۔ بنولہ آئل کے لیے 5.1بلین روپے ، سرکاری ہسپتالوں کو سپلائی کرنے والے سامان کے لیے 1.3بلین روپے ، زرعی آلات کے لیے 1 ارب روپے اور درآمدی لیب ٹاپ اور کمپیوٹرز کے لیے 400ملین روپے رکھے گئے ہیں ۔ یہ ٹارگٹڈسبسڈیز کتنی اچھی طرح سے تقسیم ہوتی ہیں ۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے ۔ تاہم ، حکومت ٹیکس چوری کے اقدامات ختم کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنا رہی ہے کہ سبسڈیز تیزی سے اور شفاف طریقے سے اہل افراد تک پہنچے ۔ ہمیں منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک کی ترامیم کو محض اس لیے رد نہیں کردینا چاہیے کہ یہ آئی ایم ایف کے مشورے پر کی گئی ہیں ۔ ایک بات یقینی ہے پاکستان کو اپنی ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کے لیے معیشت کو ددستاویزی بنانے کی اشد ضرورت ہے ۔ درحقیقت منی بجٹ کے اقدامات ہماری معیشت کو دستاویزی بنا سکتے ہیں ۔ آیئے انہیں ایک موقع دیں تاکہ ہمارے براہ راست ٹیکس (جو امیروں پر لگتے ہیں بڑھ سکیں اور بالواسطہ ٹیکس (جو کہ ہر ایک کو ادا کرنے پڑتے ہیں) کم ہوسکیں ۔(ختم شد)