اسلام آباد (وقائع نگار)اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کے آڈیو کلپ کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن قائم کرنے کی درخواست پر آڈیو کلپ کی فرانزک کیلئے اٹارنی جنرل اور پاکستان بارکونسل سے مستند فرانزک ایجنسیوں کے نام طلب کرلیے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اوریجنل آڈیو کلپ کا معلوم نہیں کہ وہ کہاں موجود ہے؟، جس پر وکیل نے کہاکہ اس کے متعلق ہمیں بھی نہیں معلوم، ہماری استدعا ہے کہ معاملے کی انکوائری کے لیے ایک انڈی پینڈنٹ کمیشن بنایا جائے، سابق چیف جسٹس آف پاکستان کی مبینہ آڈیو گفتگو کی انکوائری کرائی جائے کہ وہ درست ہے یا غلط۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ تمام چیزیں زیر التوا اپیل سے متعلق ہیں، جن کی اپیلیں ہیں انہوں نے انکوائری کا مطالبہ نہیں کیا، عدالت جو بھی آرڈر جاری کرے اس کے اثرات زیر التوا اپیلوں پر بھی آئیں گے، آپ ایک انکوائری کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کا اثر زیر التوا اپیلوں پر آئے گا، کیا ہائیکورٹ رٹ پٹیشن میں ایسا آرڈر جاری کر سکتی ہے جس کا زیر التوا اپیل پر اثر پڑے؟، آپ کی پٹیشن میں الزام ہے کہ اس عدالت کے بینچز کسی دباؤ میں بنائے گئے۔ صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہاکہ میری پٹیشن میں یہ الزام نہیں، یہ الزام رانا شمیم کے بیان حلفی میں لگایا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا کورٹ کمپرومائزڈ تھی اور بینچ پریشر میں بنایا گیا تھا؟ اس سے متعلق کوئی چھوٹا سا بھی ثبوت ہے؟، جب آپ کہتے ہیں کہ انکوائری ہونی چاہئے تو وہ بینچ میں شامل ججز کی ہو گی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ بینچ میں شامل ججز کے آرڈر سے کہاں ثابت ہوتا ہے؟ آرڈر تو اس کے برخلاف آیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر اس آڈیو کلپ کا فرانزک کرائیں تو اس کا خرچہ کون برداشت کرے گا؟، صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہاکہ وزارت قانون کو اس کا خرچہ اٹھا سکتی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ٹیکس پیئر کر پیسہ اس پر کیوں خرچ ہو؟،تاریخ واقعی تلخ ہے، ججز نے ماضی میں چیزوں کو تسلیم کیا، یہاں معاملہ مختلف ہے۔
نام طلب
ثاقب نثار آڈیو اٹارنی جنرل پاکستان بار سے مستند فرانز ک ایجنسیوں کے نام طلب
Jan 15, 2022