ادارہ¿ شماریات کے مطابق ایک ہفتے میں مہنگائی کی شرح میں 0.44 فیصد اضافہ ہوگیا‘ 23 اشیاءکی قیمتیں بڑھ گئیں‘ 7 سستی ہوئیں جبکہ 21 کی قیمتوں میں استحکام رہا۔ مہنگائی کی مجموعی شرح 31.7 فیصد تک جا پہنچی۔ 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 115 روپے‘ ایل پی جی 11.67 کلو ‘ سلنڈر کی قیمت میں 134 روپے کا اضافہ ہوا۔ اسکے علاوہ ڈبل روٹی‘ انڈے‘ چاول‘ دال‘ لہسن وغیرہ کے نرخوں میں بھی اضافہ ہوگیا۔
ادارہ¿ شماریات میں جن اشیاءکے نرخوں میں کمی کا بتایا گیا ہے‘ وہ بدستور مہنگے داموں مل رہی ہیں جبکہ آٹے کا بحران بھی جاری ہے۔ جو آٹا مل رہا ہے‘ وہ انتہائی ناقص ہے۔ تمام تر حکومتی دعوﺅں کے باوجود مہنگائی کو لگام نہیں دی جا سکی۔ دو ہفتے قبل وزیراعظم خود ہوشربا مہنگائی کا اعتراف کر چکے ہیں ۔ انہوں نے حالیہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھی اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ عوامی مفاد پر مبنی معاشی پالیسیوں کو اولین ترجیح دی جائیگی اور یوٹیلٹی بلوں سمیت عوام کو ہر ممکن ریلیف دیا جائیگا۔ اسکے برعکس دو روز قبل اوگرا نے من مانی کرتے ہوئے یکم جولائی 2022ءسے گیس 74.42 فیصد مہنگی کردی۔ تنور مافیا بھی روٹی اور نان کے نرخ بالترتیب 25 اور 35 روپے تک بڑھانے پر بضد ہے جس سے حکومتی رٹ کے عملاً ختم ہونے کا ہی عندیہ ملتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ تمام تر اعلانات اور عزم کے باوجود عوام کو ریلیف دینے کا کوئی اقدام ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ منافع خور‘ ذخیرہ اندوز اور مصنوعی مہنگائی کرنیوالا مافیا الگ سرگرم ہے۔ عوام کو صرف طفل تسلیاں ہی دی جارہی ہیں۔ اگر مہنگائی اسی تناسب سے بڑھتی رہی اور حکومتی سطح پر اس پر مہنگائی اور اسکے محرکات کو کنٹرول کرنے کے بجائے عوام کو بیانات سے ہی مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی رہی تو تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق عوام کا شدید ردعمل سامنے آسکتا ہے جو حکومت کیلئے عام انتخابات میں مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔
ادارہ شماریات کی رپورٹ مہنگائی کا عفریت اور آٹے کا بحران
Jan 15, 2023