اسلام آباد (خبر نگار خصوصی + نوائے وقت رپورٹ) نگران وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات و پارلیمانی امور مرتضی سولنگی نے کہا ہے کہ تمام سیاسی قوتوں کے مفاد میں ہے کہ انتخابات 8 فروری کو ہوں، اسی میں ملک کی بھلائی ہے، لیول پلینگ فیلڈ کی شکایت ہر ایک کو ہے۔ دراصل لیول پلینگ فیلڈ پاکستان کی ورکنگ کلاس کے پاس نہیں، سیاسی عدم استحکام اور ملک کی معاشی بقاہمارے اصل چیلنجز ہیں۔ ہمیں معاشی صورتحال میں بہتری کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو یہاں الحمرا میں منعقدہ افکار تازہ کے ساتویں ایڈیشن تھنک فیسٹ 2024ء کے پروگرام Facing the Popular Will: Election 2024 میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر سابق سینیٹر افراسیاب خٹک بھی موجود تھے۔ ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان کے آئین کے دیباچے میں لکھا ہے کہ یہ ملک اس کے منتخب نمائندے چلائیں گے، یہ ملک آئین کی موجودگی میں ہی چل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام تر سیاسی قوتوں اور متعلقہ فریقین کے مفاد میں ہے کہ انتخابات 8 فروری کو ہوں، اسی میں ملک کی بھلائی ہے۔انہوں نے کہا کہ انتخابات جمعرات 8 فروری 2024ء کو ہوں گے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ لیول پلینگ فیلڈ کی شکایت ہر کوئی کر رہا ہے، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)کو بھی لیول پلینگ فیلڈ کی شکایات ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمان کا بھی کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں لیول پلینگ فیلڈ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ دراصل لیول پلینگ فیلڈ پاکستان کی ورکنگ کلاس کے پاس نہیں، جب تک بنیادی تبدیلی نہیں آتی اور عام آدمی الیکشن میں ووٹ نہیں مانگ سکتا، لیول پلینگ فیلڈ نہیں آ سکتی۔ گزشتہ روز عدلیہ کے فیصلے کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ ایک اچھی نظیر ہے، ہر سیاسی جماعت کو اپنے ارکان کو ووٹ کا حق دینا چاہئے، بہتر ہوتا اس حوالے سے پینل میں قانونی ماہرین موجود ہوتے اور وہ قانونی موقف بیان کرتے۔ سیاسی عدم استحکام اور ملک کی معاشی بقا ہمارے اصل چیلنجز ہیں۔ آئندہ حکومت کو معاشی چیلنجز درپیش ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں معاشی صورتحال میں بہتری کی ضرورت ہے، ہمارے مجموعی بجٹ کا پرنسپل امائونٹ بڑے قرضوں اور دیگر ادائیگیوں میں چلا جائے تو ملک چلانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسلام آباد میں موجود بلوچستان سے آئے ہوئے احتجاجی مظاہرین سے متعلق سوال کے جواب میں مرتضی سولنگی نے کہا کہ اسلام آباد میں بلوچستان سے آئے ہوئے مظاہرین احتجاج پر بیٹھے ہیں۔ ان مظاہرین کو ایف نائن پارک اور ایچ نائن میں جگہ کی پیشکش کی گئی تھی لیکن ان کا اصرار تھا کہ ہم ڈی چوک پر جائیں گے۔ ریڈ زون میں کسی گروہ چاہے وہ سیاسی ہو یا مذہبی، کو داخلے کی اجازت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پریس کلب سے جب ان لوگوں نے ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کی تو پولیس نے کارروائی کی۔ انہوں نے کہا کہ مذاکراتی کمیٹی نے مظاہرین سے ملاقات کی اور ان سے مذاکرات کئے، پہلی فرصت میں گرفتار خواتین اور بچوں کو رہا کروایا گیا۔ اس کے بعد مزید 163 لوگوں رہا کیا گیا اور آخر میں بقیہ 34 افراد کو بھی رہا کر دیا گیا۔ مظاہرین کو ایمبولینس کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ گورنر بلوچستان اور کمیٹی کے دیگر ارکان مظاہرین کے پاس گئے ان سے مذاکرات کئے، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل کا حل پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں اور متعلقہ فریق تو کر سکتے ہیں نگران حکومت کے بس کی بات نہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ مظاہرین پرامن طریقے سے واپس جائیں لیکن بڑی سیاسی جماعتوں کی نمائندگی سے ایک ایسی مذاکراتی کمیٹی کی ضرورت ہے جو اس مسئلے کا بہتر حل دے سکے۔