فلسطینی اور کشمیری عوام سے دکھ بھری معذرت

پاکستان سیاست دانوں کے دل و دماغ پر اس وقت صرف اور صرف "انتخابات کا بھوت"سوار ہے اور آنکھوں کے سامنے اقتدار کی "نا پائیدار کرسی ہے یہ عوام کے ہمدرد اور غم خوار دن رات اپنی انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ ایسی صورتحال میں انہیں فلسطینی اور کشمیر کے عوام پر یہودوہنود کے ـ"وحشیانہ، سفاکانہ اور ظالمانہ " بربریت کیسے یاد آئے گی؟ ہمارے سیاست دانوں کو چاہیے تھا کہ وہ اپنی انتخابی مہم ضرور چلائیں لیکن پہلے متحد ہو کر فلسطین پر اسرائیل کے بربریت پر ریکارڈ ساز احتجاج کے لیے قوم کو متحد کرتے اور بیرونِ ممالک قائم اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے ذریعے ملک ملک اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز بلند کرتے جیسا کہ وہ اپنی مخالف سیاسی جماعتوں اور اُن کے رہنماؤں کے خلاف روزانہ کی تبیاد پر احتجاج کرتے رہے ہیں لیکن افسوس صدا فسوس ایسا نہ ہوسکا۔
 ہمارے سیاست دانوں کے اس افسوس ناک رویے کی وجہ سے یقینا پاکستانی عوام کو دلی دکھ ہوا ہے کیونکہ فلسطینی عوام ہمارے دلوں کے اندر بستے ہیں اور وہ پاکستان کو اپنا  دوسرا گھر بھی سمجھتے ہیں ہماری حکومتوں کی ناقص خارجہ پالیسی کی وجہ سیمقبوضہ کشمیر کو بھارت پہلے ہی ہڑپ کر چکا ہے جو کہ عالمی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے ہم بھارت کی اس کھلی جارحیت ، اقوام متحدہ کی قرادادوں کو پاؤں کی نوک پر رکھنااور مجبور و محکوم کشمیریوں پر وحشیانہ مظالم پر برائے نام احتجاج کرنے سے آگے بھی نہیں بڑھ سکے اس عالمی مسئلے پر اسلامی امہ اور اسلامی ممالک کی تنظیموں کی ہمیں بھر پور حمایت بھی نہ مل سکی یہی صورتحال اسرائیلی جارحیت کا شکار فلسطینوں کے ساتھ بھی درپیش ہے مغربی طاقتوں کی آشیر باد پر یہ"وحشی ، پاگل اور بے رحم درندہ نہتے فلسطینوں پر گزشتہ 110دِنوں سے خطرناک اور ممنوعہ بارود کی مسلسل بارش کررہا ہے جس سے اب تک تقریب26ہزار فلسطینی شہیداور 60ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں اس کے علاوہ اسرائیل ہزاروں فلسیطینوں کو اغوا بھی کر چکا ہے جبکہ لاکھوں فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں۔ غزہ سے ہجرت کرنے والے فلسطینیوں کے قافلوں پر وحشیانہ بمباری کرکے انہیں بھی شہید کر دیا ۔ اب یہ پالتو غنڈہ، حزب اللہ کے خاتمے کے لیے جنوبی لبنان پر بھی روزانہ ہی بمباری کر رہا ہے کس قدر دکھ اور تکلیف کی بات ہے کہ اسرائیل کی اس غنڈہ گردی پر اسلا می ممالک کی تنظیم (OIC)عرب لیگ، خلیج تعاون کونسل اور خاص کر اسلامی ممالک برائے نام احتجاج کرنے کے بعد عملاً اب خاموش ہو چکے ہیں اور اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا شور مچا کر نئے سال کے آغاز پر یہودی مصنوعات کی خریداری کے لیے نئے ریکارڈ بھی قائم کر چکے ہیں دنیا کی واحداسلامی ایٹمی طاقت پاکستان جسے اسرائیلی غنڈہ اپنا اصلی د شمن سمجھتا ہے یہاں پر بھی اب اسرائیلی کی جارحیت ، بربریت اور سفا کانہ مظالم پر احتجاج کا سلسلہ تھم چکا ہے اور عوام اپنے سیاست دانوں کے پیچھے لگ کر انتخابی دنگل میں مصروف ہو چکی ہے۔ 
حقیقت یہ ہے کہ صرف جماعت اسلامی نے فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف گلی گلی محلے محلے شہر شہر، جلسے جلوس اور ریلیوں کا سلسلہ مسلسل جاری رکھا ہو ا ہے اس کے علاوہ یہ جماعت ہر سطح پر اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم بھی بڑے منظم انداز میں چلارہی ہے ہماری دوسری سیاسی جماعتوں کو فلسطینیوں پر ہونے والے بہیمانہ ظلم و ستم کے خلاف ہر سطح پر آواز بلند کرنی چاہیے کیونکہ مسلم امہ کی خاموشی کی وجہ سے اسرائیل کی جارحیت ، بربریت اور وحشیانہ پن میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور یہ "بدمست ہاتھی"اپنی طاقت کے گھمنڈ میں یمن کے حوثی مجاہدین اور لبنان کے دارلحکومت سمیت کئی علاقوں کو بھی مسلسل نشانہ بنارہا ہے دکھ کی بات یہ کہ غزہ اور دیگر پناہ گرین کیمپوں پر وحشیانہ بمباری ، معصوم بچوں ، خواتین اور زخمی فلسطینیوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کرنے اور لاشوں کی بے حرمتی کرنے ، ان پر گاڑیاں چڑھا دینے والے واقعات، مہذب کہلانے والے مغربی ممالک کی بند آنکھیں کھلوانے کے لیے کافی ہیں، اسرائیل اپنے ناپاک تو سیع پسندانہ عزائم کے مطابق غزہ کو ملیا میٹ کر کے فلسطینیوں کی نسل کشی اور جبری بے دخلی کے ناپاک منصوبے کے مطابق اس علاقے میں اپنی یہودی بستیا ں بسانے کے پراگندہ ایجنڈے پر عمل درامد کر رہا ہے۔
 غزہ سے حماس کے خاتمے اور اسرائیلی قیدی فوجیوں کی بازیابی کے لیے ہنستے بستے شہر کو ملبے کا ڈھیر بنا چکا ہے جبکہ دنیا کھلی آنکوں سے انسانی ہلاکتوں، تباہی اور بربادیوں کے قیامت خیز مناظر دیکھ رہی ہے لیکن امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے اسـ" پالتو غنڈے" کو کوئی روکنے والا ہی نہیں ہے یہ حقیقت ہے کہ فلسطینیوں کی تمام امیدیں پاکستان ترکی اور ایران کی طرف ہی لگی ہوئی ہیں ، اسلامی ممالک کی تنظیم عرب لیگ اور خلیج تعاون سے یہ کوئی تعاون کاسوچتے بھی نہیں ہیں کیونکہ اسرائیلی جارحیت کو 110دِن سے بھی زیادہ عرصہ ہو چکا ہے اور فلسطینیوں کو ان سے کوئی مدد نہیں مل سکی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کشمیری عوام اور مجاہدین کو ہمیشہ سے ہی در پیش رہا ہے۔
 حالانکہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل میں سب سے زیادہ قرار دادیں کشمیر میں آزادانہ رائے شماری اور حق خود ارادیت کے بارے میں تھیں لیکن اسرائیل کا" یارِ غیر بھارت" مقبوضہ کشمیر کو حقیقتاً ہڑپ کر چکا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے کشمیر اور فلسطین کے مسلئے پر یہود وہنود، اُمتِ مسلمہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کر چکے ہیں اب صورتحال یہ ہے کہ ہم اسلامی دنیا کے ان دواہم مسئلوں پر زبانی اور برائے نام احتجاج سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں ۔ دوسری بات خاص طور پر پاکستان کے حوالے سے ہے کہ ہم سب عملاً فروری کے عام انتخابات کے لیے دن رات مصروف ہوچکے ہیں اور فلسطین کو موجودہ صورتحال سے توجہ ہٹاتے جارہے ہیں ہماری عوام سیاسی جماعتیں پرنٹ، سوشل اور الیکٹرونک میڈیا سب کی" ترجیح اور توجہ" صرف اور صرف انتخاب ہی ہے۔ 
پاکستانی عوام دکھی دل کے ساتھ وحشی درندے اسرائیل کی فلسطینیوں پر ہولناک اور خوفناک بمباری، ہزاروں نہتے فلسطینی شہیدوں، بیمار بچوں، خواتین ، بوڑھوں کو شہید اور زخمی کرنے ، اغوا ، کرنے ، غزہ اور دیگر پناہ گزین کیمپوں کو ملیامیٹ کرنے ، ہسپتالوں ، تعلیمی اداروں، پانی کے ذخائر، بجلی گھروں اور پناہ گاہوں کو تباہ و برباد کرنے کی یہودی افواج کی وحشیانہ کاروائیوں کی پر زور مذمت کرتے ہوئے اپنے فلسطینی عوام سے دلی معذرت کرتے ہیں کہ ہم ان کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکے ۔ یہ بات سب مسلمان یاد سرکھیں کہ قیامت خیز تباہی کا شکار فلسطینیوں کی مدد نہ کرنے پر ہمیں روز قیامت اس بے رحمی ، سرد مہری اور کوتاہیوں کا اللہ تعالیٰ کو ضرور جواب دینے پڑے گا۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن