شعبہ صحت کا بے مثال زوال

فیض عالم
قاضی عبدالرئوف معینی
چند روز قبل آدھی رات کے بعد لاہور کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں جانے کا اتفاق ہوا۔ایسے مناظر دیکھنے کو ملے کہ روح کانپ اٹھی۔جسم پر لرزہ طاری ہو گیا۔پورا ہسپتال بمعہ شعبہ حادثات بد ترین کھنڈر کا منظر پیش کر رہا تھا۔خاکم بدہن ایسے محسوس ہوتا تھا کہ یہ کسی جنگ زدہ علاقہ کا ہسپتال ہے۔شدید ترین سردی ،دھند، تکلیف دہ امراض میں مبتلا مریض مرغ بسمل کی طرح تڑپ رہے تھے اور ان کے ساتھ آئے خواتین وحضرات بے بسی کی تصویر بنے جہاں حیرت میں گم۔مسیحا بے چارے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تھے۔حالات کے ستائے اور بیماری کے مارے خالی جیب مریضوں سے ہسپتال کے عملے کی طرف سے رقم یعنی بھتہ کا مطالبہ ،گندے وارڈ، بستروں کی خون آلود چادریں ،بد بو دار لٹرینیں،متعفن ماحول ،نہ ادویات نہ ٹیسٹ ہر چیز شافی مطلق کے بھروسے پر۔بس دعائیں ہی دعائیں۔وارڈ میں تقریبا ہر بیڈ پر دو دو مریض پڑے تھے۔تین چار بے ہوش مریض تو سٹریچر پر اس انتظار میں تھے کے کوئی مریض راہی عدم ہو اور وہ اس کے بیڈ پر منتقل ہوں۔راقم السطور نے اپنی زندگی میں ایسے اندوہناک مناظر نہیں دیکھے۔کسی بھی مہذب معاشرہ میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ایسا سلوک تو جانوروں کے ساتھ بھی نہیں ہوتا جو ملک عزیز میں اشرف المخلوقات کے ساتھ ہو رہا ہے۔بڑے شہروں میں رہنے والوں کے حالات ایسے ہیں دیہاتوں میں رہنے والوں کے حالات تو اس بھی زیادہ ابتر ہیں۔پاکستان میں ہرمحکمہ اور شعبہ کی طرح شعبہ صحت زوال کا شکار ہے۔صورت حال میںموجودہ بد تری اس لیے پیدا ہوئی کہ حکومت پنجاب پر اس وقت تزئین و آرائش(پوچا پاچی)اور غریب ملک کے خزانے کو چونا لگانے کا جنون سوار ہے۔انتظامیہ کی دانش کو سلام جس نے مناسب متبادل انتظامات کیے بغیر ایک ہی وقت میں تمام ہسپتالوں کے شعبہ حادثات اور کچھ وارڈوں میںتوڑ پھوڑ کا کام شروع کر دیا ہے۔عقل دنگ ہے کہ ان ہسپتالوں میں بھی تزئین و آرائش کی ضرورت پڑ گئی کہ جن کی تعمیر کو ابھی بیس سال بھی مکمل نہیں ہوئے۔سنا ہے کہ اس مد میں اتنا پیسہ بے دریغ خرچ کیا جا رہا ہے کہ اس ے کئی نئے ہسپتال تعمیر ہو سکتے تھے۔پوچا لگانے کے اس سار ے عمل کے بعد اگر مریضوں کو مطلوبہ سہولتیں میسر نہ ہوئیں تو پھر کیا مریض ایلمونیم کی کھڑکیوں ،ماربل اور ٹائیلوں کو چاٹے گا۔پنجابی زبان میںسیانے کہتے ہیں کہ 
باہروں مل مل دھوندیے اندروں مل مل دھو 
باہروں دھوتیاں کجھ نہیں بنناں جے اندروں صاف نہ ہو 
مریض جب ہسپتال میں جاتا ہے تو اس کو ادویات اور علاج کی ضرورت ہوتی ہے ہسپتال کی خوبصورتی یا بد صورتی اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ہاں البتہ مفت معیاری علاج کے ساتھ یہ سب کچھ ہو تو پھر کوئی اعتراض نہیں۔اب تو حالت یہ ہے کہ نہ ٹیسٹوں کی سہولت اور نہ ہی ادویات میسر۔پنجاب کے سب سے بڑے امراض دل کے ہسپتال میںابتدائی اور عام تشخیصی ٹیسٹوں کے لیے کئی ماہ کا وقت دیا جاتا ہے۔تزئین و آرائش کی بجائے اگر نئے ہسپتال بنائے جاتے اور پرانے ہسپتالوں کی ایکسٹینشن کی جاتی تو بہت اچھا ہوتا۔ پاکستان کا شمار ان چند بد نصیب ممالک میں ہوتا ہے جہاں عام آدمی کے لیے صحت کی بنیادی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں افراد قابل علاج امراض کی وجہ سے بھی دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں۔
حکمرانوں نے عادت بنا لی ہے کہ وہ کسی ہسپتال کا دور کرتے ہیں۔انتظامی امور میں خرابی کا ذمہ دار ایم ایس کو قرار دے کر معطل کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہو گیا۔آج تک ایسا نہیں ہوا کہ وزیر اعلیٰ نے ذمہ داری قبول کر کے استعفیٰ دیا ہو یا وزیر اعلیٰ نے سیکرٹری صحت کو معطل کیا ہو۔ حضور والا ایک باریہ کر کے دیکھ لیں حالات سدھر جائیں گے۔یہ حقیقت ہے کہ ہر دور میں صحت کے شعبے کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیااور کبھی بھی مطلوبہ فنڈز مہیا نہیں کیے گئے۔یہ اس لیے کہ عام آدمی کی صحت کے مسائل کا حل کبھی حکومت کی ترجیح نہیں رہا۔ بجٹ میں صحت کے حوالے سے مختص رقم سے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔جو مختصر بجٹ رکھا جاتا ہے وہ بھی پورا عوام تک نہیں پہنچتا۔سوال یہ ہے کہ عام آدمی کے پاس کھانے کے لیے پیسے نہیں تو وہ بیماری کے علاج کے لیے ادویات کہاں سے خریدے گاحکمرانوں کو عام آدمی کے مسائل کا اس لیے اندازہ نہیں کہ ان کا جہاں ہی اور ہے۔مراعات یافتہ طبقہ کے علاج معالجہ کے لیے الگ سے انتظامات ہیں۔جہاں ان کے پورے خانداں کے لیے سب کچھ مفت ہے۔محکمہ صحت میں بہتری صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ انتظامی افسران کو پابند کیا جائے کہ وہ عام آدمی کی طرح عام ہسپتالوں میں علاج کے لیے تشریف لے جائیں۔لیکن یہ کون اور کیوںکرے گا۔عام آدمی بس دعا ہی کرے کہ شافی ء مطلق اسے امراض سے محفوظ رکھے اور بیماری کی صورت میں شفا بھی عطا فرمائے۔ مشاہدہ یہ ہے کہ صحت کارڈ سکیم ایک فائدہ مند سکیم تھی۔اس میں اگر کچھ خامیاں تھیں تو اس ٹھیک کیا جاسکتا تھا۔اس کو بند نہیں ہونا چاہیے۔عوام کی بہتری کے لیے بنائے گئے منصوبوں کو جاری رہنا چاہیے۔عوام کو صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ یہ سہولتیں فراہم کرنے کے لیے جامع پالیسی بنائیں تاکہ ہر شہری کو بہتر اور مفت علاج کی سہولت میسر ہو اور اس کا معیار زندگی بہتر ہو سکے۔

قاضی عبدالرؤف معینی

ای پیپر دی نیشن