یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے

گلزار ملک
  موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس 
یوں تو دنیا میں سبھی آئیہیں مرنے کے لیے
 منگل کی صبح 9 جنوری 2024 کی یہ تاریخ اور یہ دن ایسی خلش دے گیا جو شاید مشکلوں سے بھولے کیونکہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر تو دنیا میں رہ رہے ہوتے ہیں اصل میں ان کی حقیقی رہائش ان کے اچھے کارناموں مخلص ہونے اور کسی کے درد کو اپنا درد سمجھنا ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں ہوتی ہے۔ ایسی ہی ایک شخصیت جو میرے بہت ہی پیارے چچا جان ملک محمد شریف کی ہے۔ جو میرے چچا کے رشتہ کے علاوہ میرے دوست بھی تھے جو اب ہم میں نہیں رہے وہ ایک ہی تھا اس جیسی شخصیت کے حامل شخص صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ وہ ہزاروں کو رنجور کر ابدی نیند سوگیے،انا للہ واناالیہ راجعون۔ 
 وہ بہت پیارے انسان تھے لوگوں کے دلوں میں گھر کر جانے کا فن بخوبی رکھتے تھے۔ آپ ایک درویش صفت انسان دوست ہردلعزیز اور شفیق القلب خداداد صلاحیتوں کے بھرپور مالک تھے اور بڑے باہمت اور پر عزم تھے ایک فاضل محقق، محنتی شگفتہ مزاج کھلے دل و دماغ سے کام لینے والے اور ہمیشہ ہشاش بشاش رہنے والے انسان تھے۔ آپکے بارے میں آپکی زندگی میں لوگ کہا کرتے تھے کہ آپکی ڈکشنری میں انکار کا لفظ ہے ہی نہیں یہی وجہ تھی کہ جو بھی آپ کی دوکان یا گھر پر کسی کام کے سلسلے میں آیا اسے آپ نے خالی نہیں جانے دیا اسکی جس حال میں جس طرح جیسے ہوسکی بھرپور مدد کی۔ 
وہ اپنے گلی محلہ شہر بھائی پھیرو/ پھول نگر کیحلقہ احباب کی جان تھے کہ دوستوں پر جان چھڑکتے تھے یہ اپنے کام کو کام سمجھتے ہوئے بس صرف کام،کام اور کام انہیں کسی پل آرام نہیں تھا آپ نے اپنی زندگی میں بہت محنت کی اور حلال روزی کما کر اپنے بچوں کو دی پیشہ ورانہ فرائض سے فرصت ملتی تو محفلوں کی رونق ہوتے خوش خوراک بھی تھے اور خوش اطوار بھی لڑنا جھگڑنا تو سیکھے ہی نہ تھے اپنی بات کے بڑے پکے تھے جس کسی سے جو بھی وعدہ کرتے پورا کرنے کی بھرپور کوشش کیا کرتے تھے اور اپنے نظریات کا پہرا دیتے پسند ناپسند پر ڈٹ جاتے انکی یہ خوبی تھی کہ ذاتی تعلق کسی بھی صورت میں مجروح نہ ہونے دیتے آپ غریب پرور اور خوش اخلاق تھے اور بغیر کسی لالچ کے غریبوں اور بیوائوں کی مدد کیا کرتے تھے ان کا یہ عظیم کارنامہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ان ضرورت مندوں کی دعاؤں کے سہارے جی رہے تھے گزشتہ 20 سال سے بیماری کے ساتھ لڑتے رہے اور گزشتہ 13 سال سے آپ کے گردوں کے ڈیلسز ہوا کرتے تھے ان کا بیٹا شوکت انہیں لے کر اپنی گاڑی میں لاہور لے جایا کرتا تھا۔ ان کی ایک بات یہ بھی تھی کہ جب عید آتی تھی تو اس سے قبل ہی وہ اپنی جیب میں اپنے ملازمین اور بہن بھائیوں کے بچوں بلکہ یہاں تک کہ گلی محلے کے بچوں کو بھی عیدی دینے کیلئے عیدی رکھتے تھے ہر سال عیدی دینے کا فریضہ انجام دیا کرتے تھے یہ سب کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور وہ مہمان نوازی میں بھی اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے۔ وہ ایک ہی تھے جو بھرپور خوبیوں کے مالک تھے ایسے لگتا تھا کہ خامیاں تو شاید کبھی ان کے دور سے بھی نہیں گزری ہوں گی۔
 یہاں پر ایک دلچسپ بات کا بھی زکر کرتا چلوں کہ جب ان کی شادی ہوئی اور یہ دولہا بنے تھے تو راقم الحروف اس وقت تیسری جماعت کا طالب علم تھا ان کا شہ بالا (shahbala) بنا تھا بارات ملتان گئی تھی دوسری دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ مجھے سکول میں بھی انہوں نے داخل کروایا تھا میرے والد محترم مرحوم ملک محمد انور کی وفات کے بعد انہوں نے ہمارے ساتھ ہر حال میں پیار محبت اور شفقت کا جو ہاتھ رکھا جنہوں نے کبھی ہمیں یتیم ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا آپ کے جنازہ میں تمام مقامی مکاتبہ فکر کے لوگوں صحافیوں، وکلا اور دیگر لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی ہر کسی سے آپ کی شفقت محبت پیار اور خلوص کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کو زمانہ ہمیشہ یاد رکھے گا آپ نو جنوری بروز منگل 2024 کی صبح کو اس دنیا فانی کو خیر باد کہہ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے آپکے پسماندگان میں پانچ بیٹے پانچ بیٹیاں ہیں، دعا ہے اللہ پاک آپکو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے ( آمین )

ای پیپر دی نیشن