پاکستان کے سیاسی، سماجی، معاشی، اقتصادی اورامن عامہ کے مسائل بڑے گنجلک ہوتے جار ہے ہےں۔ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ پاکستان کو بیرونی خطرات لاحق ہےں۔ حالانکہ حقیقت تو ےہ ہے کہ پاکستان کو اندرونی خطرات کا سامنا ہے۔ جن میں معاشی نانصافی، غربت، جہالت ، پسماندگی، ریاست کو کمزور اور فیڈریشن کے یونٹس کا روز بروز وفاق پر بڑھتا ہوا عدم اعتماد اےسے مسائل ہےں جنہیں حل کر لیا جائے تو بیرون خطرات از خود محدود ہونا شروع ہو جائیں گے۔11مئی 2013ءکو پاکستان میں انتخابات اےک منتخب سول حکومت کی آئینی مدت کے بعد منعقد ہوئے۔ انتخابات کو سبوتاژ کرنے کےلئے طالبان نے دہشت گردی کے ذرےعے پاکستان کے عوام کو ووٹ ڈالنے کے عمل سے روکنے کی کوشش کی اور پاکستانی اقتدار اعلیٰ کو چیلنج کیا۔ لےکن عوام نے ساڑھے چار کروڑ ووٹوں کی قوت سے بیرونی ایجنٹوں کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان کے عوام نے ریاست پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کا تحفظ کرتے ہوئے ان گروہوں کو ہر طرح سے مسترد کر دیا۔دہشت گردی اور توانائی بحران اس وقت ملک کے دو سب سے بڑے اور سنگین مسائل ہےں اور ےہ بات اطمینان بخش ہے عسکریت پسندی پر قابو پانے کے لےے اےک قومی سلامتی پالیسی مرتب کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ اس مقصد کے لئے وزیراعظم نوازشریف نے اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس طلب کی ہے۔ ےہ اےک تلخ حقیقت ہے اور ہماری سیکورٹی ایجنسیاں انہیں روکنے میں اس لئے ناکام نظر آرہی ہےں کہ جو لیڈر جتنا زےادہ فوج اور ایجنسیوں کے ساتھ درپردہ رابطے میں ہوتا ہے اتناہی وہ زےادہ جارحانہ انداز میں افواجِ پاکستان کی تضحیک کرتا ہے ۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے بعض اینکر پرسنز کے چہروں کی لکیروں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں ڈالروں کی شکل میں جو بریف کیس مہیا کئے جاتے ہےں اس کا وہ پورا پورا حق ادا کرتے ہوئے نظر آرہے ہوتے ہےں اور اِس طرح ہی سیاستدان، سول سوسائٹی کے ارکان اور میڈیا پرسنز اسی رات کسی فوجی جرنیل کے سامنے دن کوکی گئی تقریر کی صفائی پیش کرنے کےلئے حاضر ہوتے ہیں۔ اسی طرح مشترکہ پارلیمنٹ اجلاس میں یہی سیاستدان اعلیٰ فوجی کمان کے قصیدے پڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن جب وہ پارلیمنٹ سے نکل کربڑے فخریہ انداز میں اخبارنویسوں اورکارکنوںکوقصیدے سناتے رہتے ہیں کہ انہوں نے پارلیمنٹ میں وہاںعسکری قیاد ت کوان کی کمزوریوں سے آگاہ کرتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔جنرل شجاع پاشا نے تو مشترکہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں بعض سےاستدانوں کے بیرون ملک روابط کے بارے میں اظہارخیال کر دیا تھا۔ لہٰذا اب متوقع کل جماعتی کانفرنس میں سیاسی و فوجی قیادت کی مشاورت سے عملی اقدامات اور قانون سازی سمیت ٹھوس تجاویز سامنے آنی چاہےے۔ ماضی میں ان حوالوں سے بعض بظاہر خوش نما تجاویز سامنے آتی رہی ہےں ۔ مگر اس کانفرنس کومحض سفارشات تک محدود نہیں رہنا چاہےے۔ اس کے عملی نتائج سامنے آنے چاہےے کیونکہ اس کے بغیر امن و خوشحالی اور عوامی فلاح و بہبود کے دعوے نقش برآب رہےں گے۔میمو گیٹ سکینڈل کا اےک پہلو ےہ ہے کہ جب بھی اقتدار فوجی حکمرانی سے سویلین حکومت کی طرف جاتا ہے تو عاجلانہ فیصلوں کی صورت میں اداروں سے محاذ آراہی کی بجائے پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اصل بات ےہ ہے کہ حکمرانوں کے فیصلے دانش پر مبنی ہوتے ہےں۔ جذبات پر نہیں۔ ایسی صورت میں پاکستان کے حالات مصر کے حالات کے مقابلے میں بہت زےادہ بہتر نہیں۔ پاکستان کے موجودہ حکمران طبقے کو مصر کے واقعات سے سبق لینا ہو گا اور احتیاط اور دانش کا دامن پکڑے رہنا چاہےے تاکہ یکسوئی کے ساتھ ملک کو بدترین بحران سے نکالنے کا عمل جاری رہے۔ اس وقت حکومت قومی سلامتی پالیسی کی تیاری کے حوالہ سے قومی کانفرنس کی تاریخ کے تعین پر غیر یقینی کا شکار ہے۔ پاکستان کی بعض پارلیمانی سیاسی جماعتیں اےک ایسی حقیقت پسند کانفرنس کے انعقاد کی خواہاں ہےں۔ جس میں وزیراعظم ، وزراءاعلیٰ اور اعلیٰ فوجی قیادت شریک ہو اور جس میں امریکہ، مشرقی وسطیٰ، افغانستان اور نیٹو کے ممالک سے معاہدوں اور مفاہمت کے حوالہ سے قوم کو سچ سے آگاہ کیا جائے تاکہ حقیقی تصویر سامنے آئے اور تب اس کو مدِ نظر رکھ کر ہر اےک کو اعتماد میں لینے کے بعد قابل عمل حکمت عملی طے کی جائے۔ واضح بریفنگ ہونی چاہےے اور جو سیاسی جماعتیں بیرون ممالک سے فنڈز حاصل کر رہی ہےں، الیکٹرانک میڈیا کے بعض میڈیا ہاﺅسز ، سول سوسائٹی کی بعض بااثر شخصیات اور الیکٹرانک میڈیا کے طاقتور صحافی جو بیرون ممالک کے مفاد کو آگے بڑھانے میں مالی فوائد حاصل کر رہے ہےں اور اسی طرح پاکستان کی بعض بڑی سرماےہ دارانہ شخصیات جو پاکستان کے مختلف میڈیا ہاﺅسز کو ماہانہ وظائف دیتی ہےں، ان سب کے بارے میں سیاسی رہنماﺅں کو اعتماد میں لیا جائے کیونکہ ےہی وہ درپردہ شخصیات ہےں جو پاکستان میں نفاق، نفرت اور غلط فہمیوں پر مبنی سرگرمیوں سے قوم کی ےک جہتی کو نقصان پہنچا رہی ہےں۔ جنرل کیانی اور ان کے ڈائریکٹر جنرل آئی۔ایس۔آئی کو اس خفےہ اجلاس میں بتانا چاہےے کہ 11مئی 2013ءکے الےکشن میں کس کس سیاسی جماعتوں کو بیرونی امداد فراہم کی گئی۔جب تک ملک میں فساد، انتشار اور خودکش حملوں کی روک تھام نہیں ہو گی اس وقت تک صوبہ خیبر پختون خواہ بلوچستان اور سندھ میں غیر ملکی سرماےہ کاری کا امکان نہیں ہے۔ کانفرنس کی تاریخ ماہ رمضان المبارک کے بعد بھی رکھی جاسکتی ہے اور اس عرصہ میں پارلیمنٹ سے باہر کی سیاسی جماعتوں سے بھی روابط بڑھانے چاہئیں تاکہ اےک متفقہ سلامتی پالیسی مرتب کرنے میں مدد مل سکے۔ماضی میں بھی 12اکتوبر 2012ءاور 2مئی 2011ءکے ایبٹ آباد سانحہ کے بعد سلامتی امور پر جو کانفرنسیں ہوتی رہی ہیں ان کے نتائج بھی حوصلہ افزاءنہیں تھے۔ اب بھی اس طرز پر جو آل پارٹیز کانفرنس ہو رہی ہے اس سے بڑی توقعات وابستہ کی جارہی ہےں جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ کانفرنس کو نتیجہ خیز بنانے کےلئے اقدامات کا خاکہ سامنے رکھ کر اور اس پر سیاسی اور عسکری قیادت کی رائے لیکر حتمی لائحہ عمل مرتب کیاجائے ۔اگر اب ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے مشورے سے قومی سلامتی کی کانفرنس کا انعقاد زمینی حقائق کے برعکس ہوا تو پھر مصر کی طرز پر تحریر سکوائر کے مناظر ےہاں بھی دیکھنے میں آئیں گے۔
کل جماعتی کانفرنس ، عملی نتائج سے ہی پاکستان کا مستقبل محفوظ ہوسکے گا
Jul 15, 2013