گوادر پورٹ کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کیلئے بعض طاقتیں پیسہ استعمال کر رہی ہیں‘ بھارت افغانستان کے راستے بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے: ظفر اللہ جمالی

اسلام آباد (آئی اےن پی) سابق وزیر اعظم اورمسلم لیگ ن کے رہنما میر ظفر اللہ خان جمالی نے کہا ہے کہ نواب اکبر بگٹی نے چوہدری شجاعت حسین سے مذاکرات میں 36 میں سے 19نکات تسلیم کر لئے تھے، میں نے نواب اکبر بگٹی کا پیغام پرویز مشرف تک پہنچایا تو وہ اکبر بگٹی سے ملاقات پر آمادہ ہوگئے مگر چند عناصر نے اس ملاقات کو سبو تاژ کیا ، حکومت دو تہائی اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صدر اور وزیر اعظم کو حاصل استثنیٰ کے خاتمے کے لئے آئین میں ترمیم کرے تاکہ کوئی کرپٹ کسی اہم عہدے پر فائز نہ ہو سکے، سابق حکومت نے پرویز مشرف کے ساتھ مفاہمت کی وجہ سے آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی نہیں کی، توقع ہے کہ وزیراعلی ٰ بلوچستان سب کو ساتھ لے کر چلیں گے‘ بھارت افغانستان کے راستے بلوچستان میں مداخلت کررہا ہے ،گوادر پورٹ کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کے لئے بعض غیر ملکی قوتیں پیسہ استعمال کر رہی ہیں،بلوچ روایات کے مطابق عزت دو اور عزت لو کے فارمولے پر عمل کرنے سے بلوچستان کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ ”خلیج“ کو دیئے گئے اپنے ایک انٹر ویو میں میر ظفر اللہ جمالی نے کہا کہ نواز شریف کو وزیراعظم کا عہدہ سنبھالے ابھی چند ہفتے ہوئے ہیں حکومتوں کے بننے پر پہلے سو دن ہنی مون پیریڈ کہلاتا ہے لیکن حکومت کی ترجیحات توانائی بحران‘ مہنگائی کو کم کرنا ہے اور اسے یہ احساس بھی ہے کہ بجٹ میں جی ایس ٹی کے نفاذ سے مہنگائی ممیں اضافہ ہوگا ہر پاکستانی چاہے گا کہ حکومت آئین پر عمل کرے اور عوام کے مفادات کا بھی تحفظ کیا جانا چاہئے۔ جہاں تک سوئس مقدمات کا تعلق ہے تو پانچ سال تک حکومت نے عدالت کے احکامات پر عمل نہیں کیا جس کے باعث ایک وزیراعظم کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ میر ظفر اﷲ خان جمالی نے کہا کہ بلوچستان میں اس وقت ہی مسائل حل ہونگے جب تمام ادارے ایک ہی سوچ اور رائے کے تحت کام کریں گے ایک دوسرے پر مداخلت کے الزامات عائد کرنے کا سلسلہ اب ختم کرنا ہوگا۔ ماضی کے حکمرانوں کی ترجیحات صوبے میں حالات بہتر بنانا نہیں بلکہ کچھ اور تھیں جس کی وجہ سے صوبہ تباہ کردیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ میری رائے میں مسائل بلوچ روایات پر عمل کرنے سے حل کرنے میں بڑی مدد ملے گی عزت دو اور عزت لو کے فارمولے پر عمل کرنا ہوگا۔ سابق حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچ عوام سے روابط بڑھائے جائیں اور انہیں اب احساس دلایا جائے کہ ماضی میں ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کیا جائے گا تو بہتری کا امکان ہے۔ جنرل ضیاء کے دور میں کابینہ کا ایک اجلاس کوئٹہ میں رکھا گیا تو دو سابق وزراءنے کہا کہ انہوں نے پہلی مرتبہ کوئٹہ دیکھا ہے حکمران طبقے کو صوبے میں جا کر بیٹھنا ہوگا پھر مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...