ورلڈ ہاکی لیگ میں قومی ٹیم کی بدترین کارکردگی کے بعد سابق کھلاڑیوں نے ایک مرتبہ پھر فیڈریشن میں بڑے افسروں کی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔ یاد رے کہ یہ مطالبہ گزشتہ چار برس میں پہلی مرتبہ نہیں کیا گیا ماضی کے عظیم کھلاڑیوں کی طرف ماضی قریب میں یہ مطالبہ مسلسل کیا جا رہا ہے۔ دیکھیں اس مرتبہ شنوائی ہوتی ہے یا نہیں بہرحال اپنی سوچ اور نظرئیے کے مطابق انہوں نے اپنا حق تنقید استعمال کرتے ہوئے ذمہ داری ادا کر دی ہے۔ دوسری طرف طاہر زمان اور حنیف خان کا میچ بھی خاصا دلچسپ ہو گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق دونوں کے مابین شدید قسم کے اختلاف ہیں۔ یہ خبریں بھی آ رہی ہیں آئندہ چند روز میں ٹیم انتظامیہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی جائیں گی۔ ورلڈ ہاکی لیگ میں ناکامی کی وجہ بی ایچ ایف آفیشلز کو بھی قرار دیا جائے۔ اختر رسول، حنیف خان، منظورالحسن اور طاہر زمان سمیت سبھی اپنے اپنے انداز میں کوچنگ کر رہے تھے۔ کھلاڑی سمجھنے سے قاصر رہے کہ انہوں نے کس کوچ کی ہدایات پر عمل کرنا ہے، کس کی بات سننی ہے اور کس کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دینی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ فٹنس مسائل کی وجہ سے کھلاڑی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے غرضیکہ ہر کوئی اپنے انداز اور اپنے ذرائع سے خبریں اکٹھی کر رہا ہے اور عوام تک پہنچا رہا ہے۔ ایسے وقت میں ٹیم انتظامیہ میں تبدیلی کی خبریں کسی منصوبہ بندی کا حصہ معلوم ہوتی ہیں کیونکہ ماضی میں بھی جب ٹیم کوئی بڑا ٹورنامنٹ ہارتی تھی تو چند ایک کو قربانی کا بکرا بنا کر سب کو بچا لیا جاتا تھا اور اس کام کے لئے بڑی بہترین منصوبہ بندی کی جاتی تھی۔ آج بھی وہی ہو رہا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ کسی کے لئے پھندہ تیار ہو رہا ہے۔ اختر رسول اگر سیاسی مصروفیات کا بہانہ بنائیں تو انہیں جواب میں ویسا ہی بھرپور لیکچر دے کر روک لینا چاہئے جیسا جذبات سے بھرپور وہ کھلاڑیوں کو دیتے ہیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس وقت ٹیم مینجمنٹ اور پاکستان ہاکی فیڈریشن میں کوئی تبدیلی نہیں ہونی چاہئے یقیناً نہیں ہونی چاہئے کیونکہ کھیلوں میں کسی بھی سطح پر کامیابی کا تسلسل ضروری ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کی عالمی کپ میں شرکت ایشیا کپ میں مشروط ہے۔ کسی کو ”شہید“ بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہیڈ کوچ و منیجر اختر رسول کو مشل مین ڈین کے جانے کے بعد کوچنگ کی ذمہ داری دی گئی تھی اب انہیں ہٹانا مناسب نہیں ہے نہ ہی فیڈریشن میں اس وقت تک کوئی بڑی تبدیلی ہونی چاہئے جب تک عالمی کپ 2014ءکھیل نہیں لیتا۔ اگر ایشیا کپ میں ناکامی ہوتی ہے تو پھر تمام ذمہ داروں سے گزشتہ چار پانچ برس کا حساب کتاب ضرور لینا چاہئے۔