شیخ رشید اور پرویز رشید کے ناموں میں کتنا رِدھم ہے مگر دونوں ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں۔ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ حکومت پندرہ دن کی مہمان ہے ورنہ ایک مہینے بعد آزادی مارچ سے حکومت کا تختہ الٹ ہی جانا ہے۔ ”لانگ مارچ“ پرویز رشید کے اعصاب پر سوار ہو چکا ہے۔ ذاتی اور سیاسی تعصب اپنی جگہ.... مگر پرویز رشید حقائق کو مسخ نہ کریں۔ عمران خان کا ایک ماضی ہے ایک تاریخ ہے ایک کردار ہے۔ عمران خان نے ایک بہترین باﺅلر، شاندار کپتان اور ایک محب وطن پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ ٹھیک ہے وہ اپنے بعض ذاتی معاملات میں ایک بہت نیک انسان نہ ہوں۔ مطلب یہ کہ کچھ کوتاہیاں ہوئی ہوں۔ ہر انسان میں کچھ نہ کچھ شخصی خامیاں ہوتی ہیں۔ اگر عمران خان سے کوئی غلطی ہوئی تو انہوں نے اعتراف بھی کیا۔ معافی بھی مانگی۔ پردہ تو نہیں ڈالا۔ اس کا ازالہ انہوں نے کینسر ہسپتال بنا کر کیا۔ لاکھوں دکھی انسانوں کو زندگی کی طرف لانے کی میں کردار ادا کیا۔ ورلڈ کپ جیت کر پاکستان کا دنیا بھر میں سر اونچا کیا۔ ارسلان افتخار کا ایک قد آور شخصیت سے موازنہ احمقانہ ہے۔ کیا یہ حیران کن بات نہیں کہ ایک سابق چیف جسٹس کا بیٹا غیر ضروری حرکات میں مصروف ہے۔ اس کا عمران خان کے ذاتی معاملات سے کیا لینا دینا ہے۔ کسی کی ذاتی زندگی میں جھانکنا یا اس کی کمزوریوں کو عیاں کرنا بدترین گناہ ہے۔ ارسلان افتخار کا ان سب معاملات سے آخر کیا لینا دینا ہے؟ بہرحال اس کھیل میں شیخ رشید کی جیت اور ارسلان افتخار کی مات نظر آ رہی ہے۔ آج کل حکومت ویسے بھی ”میٹنگ“ پر چل رہی ہے یا وینٹی لیٹر پر۔
حکومت مشرف کو جانے دیتی تو یوں دلدل میں نہ دھنستی۔ ہم نے بہت پہلے کہا تھا کہ حکومت کو ساری توجہ عوامی مسائل کے حل پر مرکوز کرنی چاہئے اور پرویز مشرف کو نہیں روکنا چاہئے۔ اگر پرویز مشرف سے حساب کتاب کرنا ہے تو اصل مجرم شوکت عزیز کو پکڑا جائے۔ شوکت عزیز کو کوئی کچھ نہیں کہتا۔ بس پرویز مشرف سے دشمنی نکالی جا رہی ہے بلکہ چودھری شجاعت حسین کی بات درست ہے کہ تمام ملوث افراد سے باز پرس کی جائے۔ اس میں پرویز الٰہی، الطاف حسین، عمران خان، مولانا فضل الرحمن، غلام احمد بلور سبھی کرداروں کو عدالت لایا جائے۔ جب بات چلے گی تو آصف زرداری، پرویز کیانی، یوسف رضا گیلانی، نواز شریف، شہباز شریف، چودھری نثار.... سبھی تک بات جائے گی کیونکہ اس سارے معاملے میں سبھی کا کچھ نہ کچھ بلکہ بہت کچھ کردار ہے۔ اگر انصاف چاہئے تو سب کو عدالت کے کٹہرے میں آنا ہو گا اور گئے دنوں کا حساب دینا ہو گا۔ میاں نواز شریف نہ بھولیں کہ جب پرویز مشرف کو ”فارغ“ کیا جا رہا تھا تو نواز زرداری دونوں بھائی بنے ہوئے تھے۔ نئی حکومت کی تشکیل دونوں کی باہمی رضامندی سے ہوئی تھی۔ یوسف رضا گیلانی کے راز فاش کرنے کے بعد اب یہ سلسلہ منطقی انجام تک پہنچ کر ہی دم لے گا۔اس سنجیدہ ترین گفتگو میں ایک دلچسپ لطیفہ کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ خبر ہے کہ خادم اعلیٰ نے صحافیوں سے بڑے ڈرامائی انداز میں سوال کیا کہ ”آپ کو میرے اچانک رمضان بازاروں کے دورے کا کیسے علم ہوا؟“ یہ ایک ایسا لطیفہ ہے کہ بندہ ہنسی نہیں روک سکتا۔ کس قدر دلچسپ لطیفہ ہے.... بلال یاسین بھی اچانک رمضان بازار کے دورے کرتے ہیں اور انکی ہر اخبار چینل میں تصویریں خبریں تواتر سے چلتی ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب تو کسی عام آدمی سے بھی ملاقات کریں۔ زیادتی ہونیوالی لڑکی یا گٹر میں گر کر مرنے والے بچے کی تعزیت کیلئے بھی جائیں تو میڈیا کا لشکر ہمراہ ہوتا ہے۔ رمضان بازاروں میں اتنے مشیر وزیر پروٹوکول آفیسر آگے پیچھے درجنوں گاڑیاں جائیں تو کسی کو پتہ نہیں چلے گا۔ خیر میں اس لطیفہ کے اصل محرکات اور جزئیات میں نہیں جاﺅں گی ورنہ سارا کالم اسی کی نذر ہو جائیگا۔ نجم سیٹھی کی وجہ سے پاکستان کی ہر روز تضحیک ہو رہی ہے۔ عزت، حمیت، غیرت اور انا بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ نجم سیٹھی کو اس دوران اندازہ ہو چکا ہے کہ 35 پنکچروں کا کارنامہ اور پھر جبراً پی سی بی چیئرمین شپ پر بار بار آنا، سبھی کو ناگوار گزرا ہے۔
ویسے تو کسی ملک کیلئے یہ بھی شرم کی بات ہے کہ اس کی فوج کو اسکے اپنے ہی ملک میں لڑنے پر لگا دیا جائے۔ ایسا تب ہوتا ہے جب حکومتیں کمزور ہوں اور ان کا اپنا خود کوئی کنٹرول نہ ہو۔ تقریباً آدھے سے زیادہ اسلامی ممالک کا یہی حال ہے جس میں پاکستان سرفہرست ہے۔ تادمِ تحریر فلسطین میں 200 سے زائد فلسطینی شہید کر دئیے گئے ہیں۔ غزہ میں حملوں کیلئے امریکی ہتھیار استعمال کئے گئے ہیں اور اسرائیلی وزیراعظم نے ڈھٹائی سے تمام فلسطینیوں کو مارنے کی دھمکی دی ہے لیکن تمام اسلامی ممالک افیمیوں کی طرح سوئے پڑے ہیں۔ او آئی سی جیسی شرمناک اسلامی تنظیم بھنگ یا چرس پی کر اوندھے پڑی ہے۔ فلسطینی سفیر نے کہا ہے کہ ”بمباری سے فلسطینی شہید ہو رہے ہیں اور مسلمان ڈھٹائی سے فٹبال دیکھنے میں مصروف ہیں“ ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ اسلامی دنیا کفر و الحاد کے نشانے پر ہے مگر مسلمان عیش عشرت اور آپس میں ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہیں۔ خود پاکستان کیلئے عبرت اور شرم کا مقام ہے خاص طور پر حکومت اور میڈیا کیلئے جو بھارت پرستی میں پاگل ہو چکے ہیں۔ بھارت کی خوشامدوں پر اترے ہوئے ہیں۔ پاکستانی وزیراعظم کا بس نہیں چلتا کہ جا کر بھارتی وزیراعظم کے گلے لگ جائیں۔ سبرامنیم نے کہا ہے کہ بھارت کشمیر کیلئے پاکستان پر ایٹم بم دے مارے جس سے 10 کروڑ پاکستانی اسی وقت مر جائینگے۔ سبرامنیم نے کافی زیادہ زہر اگلا ہے۔ یہ حکومت پر طمانچہ ہے۔ افسوس! ایک دوسرے کو نوچنے کے چکر میں اصل دشمنوں کو فراموش کر دیا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ حکومت خود فراموشی کی حالت میں ہے۔ خدا کیلئے تعیش کدوں سے باہر نکلو
اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے