بالآخر وہی ہوا جس کی امید کی جا رہی تھی ، وزیر اعظم نوازشریف کی صدارت میں ہونےوالے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ کسی کو اسلام آباد کا امن برباد کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی ، اجلاس میں کئے گئے فیصلے کے مطابق ڈی چوک اسلام آباد میں اجتماع کی اجازت نہیں ہو گی، جشن آزادی پر پارلیمنٹ کے سامنے پرچم کشائی تقریب کے انعقاد کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ ذرائع کیمطابق تحریک انصاف کے آزادی مارچ سے نمٹنے کیلئے وزیر داخلہ کو ٹاسک دیدیا گیا ہے۔
حکومت کے اس فیصلے کے ضمن میں دو آڑو مارکیٹ میں موجود ہیں، ”حکومت نے اچھا کیا حکومت نے برا کیا“حکومتی اقدام کو سراہنے والوں کے نزدیک سرکار نے اسلام آباد کو پیش آنیوالے ایک بہت بڑے ممکنہ سانحہ اور حادثے سے بچا لیا ہے جبکہ سرکاری اقدام کی مخالفت کرنے والا طبقہ اسے جمہوریت کش اقدام قرار دے رہا ہے۔ حکومت نے اسلام آباد میں آزادی مارچ کو روکنے کا اعلان کر کے اچھا کیا برا کیا جتنے منہ اتنی زبانیں البتہ ایک بات طے ہے کہ کوئی بھی حکومت افراتفری پھیلانے کی اجازت نہیں دے سکتی اور نہ ہی اسے اس قسم کی اجازت دینی چاہئے کیونکہ اب تک سامنے آنیوالے بیانات یہی تاثر دے رہے تھے کہ 14اگست کو کچھ ہونے جا رہا ہے حکومت دھڑام سے گر پڑے گی اور وہ بہت کچھ ہو جائیگا جو نہیں ہونا چاہئے اسی لئے تو حکومت نے عمران خان کو مذاکرات کا دانہ ڈال کر وقت پٹانے کی کوشش بھی کی مگر شیخ رشید ٹائپ لوگ بھلا کب مذاکرات ہونے دیتے ہیں اور بقول شاعر وہی ہوا۔
کر کر کے منتیں تیری عادت بگاڑ دی
دانستہ ہم نے تم کو ستمگر بنا دیا
عمران خان کو ڈٹے رہنے کا مشورہ دینے والوں کے نزدیک اگر خان نے یہ موقع گنوا دیا تو کبھی وزیر اعظم نہیں بن سکے گا، اگر ہم نواز شریف کو بھولا بادشاہ اور لائی لگ کہتے ہیں تو عمران خان بھی اس ضمن میں لائی لگ ہی واقعہ ہوئے ہیں وہ اپنے وزیر اعظم بننے کے خواب اور خواہش کو بھلا کیونکر قربان کر سکتے ہیں۔
دوسری طرف کینڈین شہزادے کی سرگرمیوں نے حکومت کو کافی کنفیوژ کر کے رکھ دیا ہوا ہے۔حکومت کو بڑا خطرہ اس بات کا ہے کہ اگر چودھری برادران اور شیخ رشید وغیرہ طاہر القادری اور عمران خان کو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یقیناً ایک دھماکہ ضرور ہو گا۔ عمران اور طاہر القادری کے ایجنڈے مختلف ہیں، عمران خان بظاہر مڈ ٹرم انتخابات چاہتا ہے جبکہ علامہ حکومت کا دھڑن تختہ چاہتا ہے، اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی لوگ نواز حکومت کو چلتا کر کے کیا لے پائیں گے۔ موجودہ لیڈروں میں کوئی ہے جس کا دل غریب اور سفید پوش طبقہ کے لئے دھڑکتا ہو جو صدق دل سے مہنگائی اور منافع خوری کی مذمت کرتا ہو کوئی ہے جو اس بات پر دل ہی دل میں کڑھتا ہو کہ میرے ملک کے عوام کی اکثریت رات کو کھانا کھائے بغیر سونے پر مجبور ہے میرے ملک کے ہزاروں لاکھوں لوگ دوائی خریدنے کی سکت نہیں رکھتے میرے ملک کے ہزاروں گھرانے بجلی کے بل ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، میرے پاکستان کے لوگ تبدیلی کے لئے باہر نکلیں تو کس کے بل بوتے پر علامہ صاحب انقلاب انقلاب کی رٹ تو لگا رہے ہیں کبھی انہوں نے وضاحب کی کہ ان کے انقلاب کا طریقہ کار کیا ہو گا، پاکستانی لوگ ان کے ایجنڈے اور انقلابی طریقے سے بے خبر ہیں، عمران خان ہوں یا طاہر القادری چند لاکھ لوگوں کو سڑکوں پر لا کر حکومت گرا سکتے ہیں کیا۔ ایسا سوچنے والے یقیناً احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔
دائیں بائیں کا جائزہ لینے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جن خطرات کے پیش نظر حکومت نے آزادی مارچ کو رکوانے کا منصوبہ بنایا ہے اگر آزادی مارچ کو رکوانے کے عمل کے دوران کوئی چھوٹی سی لغزش بھی ہو گئی تو اسلام آباد کی سڑکیں انسانی خون سے سرخ بھی ہو سکتی ہیں اور بعض سیاسی یتیم چاہتے بھی یہی ہیں۔آپ تصور کیجئے کہ اگر چودھری برادران اور شیخ رشید وغیرہ علامہ کو بھی آزادی مارچ کا حصہ بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو خون کی ہولی کو کیونکر روکا جا سکے گا، میں عمران خان کی بات نہیں کر رہا البتہ علامہ کے بارے میں ضرور عرض کر سکتا ہوں کہ وہ لاہور میں گرنے والی 15/16لاشوں کا بدلہ ضرور لیں گے اور عمران خان کے آزادی مارچ کو انسانی خون سے رنگین کرنے کی کوشش ضرور کرینگے، یہ صورتحال حکومت پاکستان کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ 14اگست کو حکومت گرے نہ گرے البتہ خون خرابہ ہونے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں حکومت کو اپنی رٹ قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ صبر کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے، حکومت اور ن لیگ میں اگر خواجہ سعید رفیق، عابد شیر علی اور رانا ثناءاللہ ٹائپ منہ پھٹ لوگ موجود ہیں تو حکومت اور ن لیگ میں دماغ استعمال کرنے والے لوگوں کی بھی شائد کمی نہیں، شہباز شریف کا دماغ ضرورت سے زیادہ کام کرتا ہے نثار علیخان کو بھی اللہ نے عقل سلیم سے نواز رکھا ہے ان تینوں کو سر جوڑ لینے چاہئیں اور ہر طریقہ استعمال کرنا چاہئے؟ کہ سانپ بھی مر جائے لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
14اگست کو کیا ہو گا؟
Jul 15, 2014