تہران میں منعقدہ تین روزہ کانفرنس کے شرکاء میں پاکستان کے وفد میں محترم کاظم سلیم بھی شامل تھے۔ یہ سکردو کے رہنے والے ہیں قم میں زیر تعلیم رہے اور ایم فل کرنے کے بعد آج کل اسلام آباد میں ایک تعلیمی ادارہ چلارہے ہیں۔ایران میں ان کا حلقہ احباب وسیع ہے ۔ چنانچہ ہمیں تہران سے قم جانے کیلئے بھی انہی کے دوست کام آئے۔ ہمارے ہوٹل سے قم شہر کا فاصلہ دو گھنٹے میں طے ہوا۔ نصف شب ہم قم کے ایک گھر کے باہر رکے جو ’’اتحادیہ انجمن ہائے ثقافتی‘‘ کے جواں سال عہدیدار کا گھر تھا۔ یہ ادارہ اسلامی ممالک میں کام کرنیوالی تنظیموں کے اتحاد کیلئے علمی اور عملی تعاون کرتا ہے جس میں بلا تفریق مسلک و مذہب متحرک مسلمان نوجوان شامل ہیں۔ صبح کا ناشتہ اسی تنظیم کے مرکزی دفتر میں رکھا گیا تھا۔ یہ ایک خوشگوار مجلس تھی جس میں مختلف ممالک کے زیر تعلیم طلباء شامل تھے۔ اسی ملاقات میں ہمارے دوست علامہ احسان رضی شامل تھے جو اگلے دو دن اپنی گاڑی سمیت گائڈ کے طور پر میرے ساتھ رہے۔ ان کا آبائی تعلق بھی بلتستان سے ہے مگر آج کل کراچی میں مقیم ہیں اور گذشتہ دس سال سے قم کی علمی فضائوں سے مستفیض ہورہے ہیں۔ آجکل یہ تصوف اور عرفان پر Ph.D کر رہے ہیں۔ میرے قم آنے کی ایک وجہ تو اس شہر کی علمی شہرت تھی اور دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ اگلے روز یعنی 25 جون یہاں کی سب سے بڑی دانش گاہ المصطفیٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے شعبہ تفسیر کے ایک دوست علامہ فدا حسین عابدی کے Ph.D کے تحقیقی مقالے کے امتحان میں بطور نگران شرکت تھی۔ میں اس سے قبل مصر اور پاکستان میں اس طرح کے علمی اجتماعات میں بطور مبصر اور بطور ممتحن شرکت کرتا رہا ہوں مگر حوزہ علمیہ قم کی معروف یونیورسٹی اور اسکے مرکزی شعبہ کے تحت ہونیوالے پبلک ڈیفنس میں شرکت میرا پہلا خوشگوار تجربہ تھا۔ یہاں کا ماحول اور طریقہ کار کم و بیش جامعہ الازہر سے مماثل تھا۔ پاکستانی سکالر فدا حسین عابدی نے اپنے Ph.D کے تحقیقی مقالے میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے اہل بیت اطہار کے علمی حجیت سے متعلق نظریات کا قرآن و سنت کی روشنی میں جائزہ لیا تھا۔ مقالے کے محقق سمیت تین عدد چوٹی کے ماہرین علم اور نگران مقالہ آیت اللہ زمانی نے اپنی اپنی رپورٹس پیش کیں حال میں موجود حاضرین بھی اصحاب علم و فضل تھے انہوںنے بھی بحث میں بھرپور شرکت کی۔ میں چونکہ معاون نگران تھا اس لئے میں نے بھی اس خالص علمی کاوش سمیت ڈاکٹر صاحب کی ان کاوشوں کا تعارف کرایا جو انہوں نے بین الاقوامی سطح پر اسلامی تعلیمات امن کو متعارف کرانے میں صرف کیں اور خاص طور پر بین المسالک ہم آہنگی پر مبنی کاوشوں کا ذکر کیا۔ شیعہ سنی اختلافات کو کم از کم کرنے اور باہمی احترام و محبت کی فضاء قائم کرنے میں انکی منفرد حیثیت کسی شک و شبہ سے بالا تر ہے۔
قُم ایک قدیم شہر ہے مگر اسکی مرکزیت اور شہرت کو چار چاند اس وقت لگے جب امام خمینی نے اسی شہر کے مقدس مقام معصومہ قم حضرت سیدہ فاطمہؓ کے مزار سے متصل مسجد کے منبر سے پہلا انقلابی خطاب کیا جس نے شاہ ایران کے پائے تخت کو ہلاکر رکھ دیا۔ امام خمینی اسی شہر میں زیر تعلیم رہے اور آیت اللہ کا علمی مرتبہ حاصل کرنے کے بعد یہیں درس و تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ ا نہوں نے اپنے معاصر علماء کے برعکس ’’ولایت فقیہ‘‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے علماء کا فرض قرار دیا کہ وہ خود آگے بڑھیں اور باطل استعماری طاقتوں کے آلہ کار شاہ ایران کو اقتدار سے ہٹا کر خود عنان حکومت سنبھالیں۔ انکے اس باطل شکن انقلابی تصور میں اس قدر جان تھی کہ حق آگاہ علماء دنیوی منفعت سے قطع نظر انکے شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ایران میں لوگ شہنشاہیت کیخلاف برسرپیکار ہوگئے۔ ریاستی جبر مزید بڑھا تو امام خمینی کچھ عرصہ کیلئے ملک بدر ہوگئے۔ انہوں نے فرانس سے انقلابی تحریک کی سرپرستی جاری رکھی اور پھر جب 1979ء میں وطن واپس لوٹے تو لاکھوں مردو خواتین نے مہر آباد ایئر پورٹ پر انکا تاریخی استقبال کیا۔ یہی استقبالیہ اجتماع دراصل رضا شاہ پہلوی کے دور اقتدار کے خاتمے کا سبب بن گیا اور ایران کی سرزمین تب سے اب تک اسلامی انقلاب کے خوشگوار ثمرات سمیٹ رہی ہے۔
قم کے تقدس میں معصومہ قم سیدہ فاطمہؓ کے مزار کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ حضرت سیدہ مامون الرشید کے دور میں اپنے بھائی حضرت امام رضاؓ کو ملنے مشہد جارہی تھیں کہ قم کے قریب ’’ساوہ‘‘ کے مقام پر ناصبیوں نے حملہ کرکے انہیں شدید زخمی کردیا۔ دو دن بعد جب ان کا وصال ہوا تو قم کے ایک خدا ترس محب اہل بیت رئیس نے انہیں اپنے وسیع باغ میں چپکے سے دفن کردیا۔ چنانچہ یہ باغ بعد ازاں ان کا حرم بن گیا اور اس مزار کی وسعتوں میں اب دنیائے اسلام کی اعلیٰ علمی مجالس کا تسلسل قائم ہے۔ قم میں اس حرم سے وابستہ اعلیٰ مدارس کے علاوہ 7 ہزار کے قریب مراکز علم و تحقیق ہیں۔ جن میں کئی ایک عالمی شہرت کے حامل ہیں۔ چند سال قبل UNO کے ادارہ یونیسکو نے قم کو دنیائے اسلام کا سب سے بڑا اور مضبوط علمی و تحقیقی مرکز قرار دیا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ قم کی سڑکوں اور بازاروں میں علماء اور طلباء ہی گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ ایشیائ، یورپ، افریقہ، ہندوستان، چین اور عرب ممالک کے متلاشیان علم ایران کے مقدس شہر قم جوق در جوق آتے ہیں۔ ایک المصطفیٰ یونیورسٹی میں 107 ممالک کے طلباء زیر تعلیم ہیں جن میں 2 ہزار سے زائد پاکستانی ہیں۔
یہاں ایک اور عالمی یونیورسٹی ہے جس میں صرف مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ کرایا جاتا ہے۔ ہر مذہب کا ماہر خواہ وہ بدھ مت سے ہو یا کسی بھی دوسرے غیر اسلامی مذہب سے۔ اسے اپنے مذہب کی بنیادی تعلیم دینے کی وہاں نہ صرف اجازت ہے بلکہ حکومت انکی خدمات حاصل کرتی ہے۔ اسی طرح یہاں ایک بہت بڑا مرکز ہے جہاں علمی سافٹ ویئر تیار ہوتے ہیں۔ مجھے ایک سافٹ ویئر دکھایا گیا جس میں 60 ہزار تفاسیر قرآن کو جمع کردیا گیا ہے۔ یعنی شروع سے اب تک جتنے لوگوں نے جہاں جہاں اور جس زبان میں قرآن کی تفسیر کی اسے ایک جگہ جمع کردیا گیا ہے۔ یہی صورت احادیث، فقہ، سیرت، تاریخ، تصوف، مطالعہ مذاہب اور عربی و فارسی زبان و ادب کے مجموعوں کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھ جیسا طالب علم اگر اس طرح کی بستی میں چلا جائے تو اسے مہینے نہیں سال چاہیں۔ مگر بدقسمتی سے مصروفیات دامن گیر تھیں اس لئے دو دن کے بعد دوبارہ آنے کی شدید خواہش لئے میں علی الصبح تہران ایئر پورٹ کیلئے روانہ ہوگیا۔