بغداد / لندن (اے پی اے‘ آن لائن) عراق میں برسرپیکار اسلامی ریاست کے جنگجوئوں نے اپنی پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے دارالحکومت بغدادکے شمال مشرقی علاقے میں مزید 2 قصبوںپر قبضہ کرلیا جبکہ عراقی پارلیمنٹ ایک بار پھر نئی حکومت بنانے میں ناکام ہوگئی۔ذرائع ابلاغ کے مطابق باغیوں نے بغداد سے 80 کلومیٹر دور دھولیہ قصبے پر قبضہ کرلیااور 3 پولیس سٹیشنوں، لوکل کونسل ہیڈ کوارٹرز، عدالت اور ایک پل کو دھماکے سے اڑادیا۔ لڑائی میںبریگیڈئر جنرل سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے۔ بغداد کے مغرب میں بھی باغیوں اور سیکیورٹی فورسز میں شدید لڑائی جاری ہے۔ بغداد اوردیالہ میں بم دھماکوں اورفائرنگ سے پولیس کے ایک بریگیڈیئر جنرل سمیت مزید 6 افراد مارے گئے۔ادھربدترین سیاسی کشیدگی اور داخلی سلامتی کے خوفناک بحران کا سامنا کرنے والے عراق کی پارلیمنٹ ملک کو بحران سے نکالنے میں تو ناکام رہی مگر آپ یہ سْن کر حیران رہیں گے کہ ارکان پارلیمان کا مختصر اجلاس قومی خزانے پر کتنا بھاری بوجھ ہے کہ پارلیمنٹ کا محض پچیس منٹ کا اجلاس 24 ارب عراقی دینار یعنی 20 ملین امریکی ڈالر میں پڑ رہا ہے۔العربیہ ڈاٹ نیٹ نے ایک رپورٹ میں عراقی پارلیمنٹ کے اجلاسوں پر ہونے والے ہمہ نوع اخراجات کا جائزہ لیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق عراقی پارلیمنٹ پچھلے چند ہفتوں کے دوران وزیر اعظم، اسپیکر اور صدر مملکت کے چناؤ کے لیے کئی اجلاس منعقد کر چکی ہے جو بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہوئے لیکن ان میں سے ہر اجلاس مقروض اور غریب عراقی عوام کے کندھوں کروڑوں ڈالر مزید بوجھ ضرور ڈال گئے۔رپورٹ کے مطابق ہر ایک رْکن پارلیمنٹ کو ماہانہ 10 ملین عراقی دینار یا 8 ہزار 500 امریکی ڈالرز کے مساوی رقم اعزازیہ کے طور پر ادا کی جاتی ہے۔ تیس ملین عراقی دینار یعنی 25000 امریکی ڈالر ہر رکن کے سیکیورٹی عملے پر ماہانہ خرچ کیے جاتے ہیں۔ رکن پارلیمنٹ کی دیگر معاشی ضروریات کے لیے ہر ماہ 90 ملین دینار یا 77000 امریکی ڈالر الگ سے ادا کیے جاتے ہیں۔یوں یہ رقم مجموعی طور پر 02 ارب عراقی دینار یعنی 1700000 امریکی ڈالرز تک جا پہنچتی ہے۔ اس ساری رقم میں ارکان کے دفاتر اور ان کے دیگر عملے کے اخراجات، پارلیمنٹ کے اجلاس کی خصوصی سیکیورٹی کے چار لاکھ 20 ہزار ڈالر، ارکان کے ایک روز کے طعام و قیام کے 07 لاکھ 30 ہزار ڈالر کے اخراجات مذکورہ اخراجات کے علاوہ ہیں۔جامعہ تکریت میں اکنامکس کالج کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس نے جرمن خبر رساں ایجنسی سے گفتگو میں بتایا کہ عراق میں ایک ووٹ کی قیمت تقریبا سات ڈالر بنتی ہے جبکہ دنیا کے امیر ترین ممالک میں بھی ایک ووٹ پر 33 سینٹ سے زیادہ کی لاگت نہیں آتی۔انہوں نے مزید کہا کہ ریاست کو ایک ووٹ کے لیے سات ڈالر خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ یہ سات ڈالر سیکیورٹی کے انتظامات، دیگر انتخابی سرگرمیوں، لاجسٹک اسپورٹ کی فراہمی، بیلٹ پیپروں، سیاہی، ووٹروں کے الیکٹرونک کارڈز، کمپیوٹرز، ووٹوں کی گنتی، جانچ پڑتال اور الیکشن کمیشن کے عملے کی تنخواہوں کے سوا ہیں۔ اگر یہ رقوم بھی ووٹوں کی قیمت میں شمار کی جائیں توایک ووٹ کی قیمت کئی گنا بڑھ جائے گی۔جہاں ایک ووٹ کی قیمت سات ڈالر تک ہو وہاں انتخابات کے دوران الیکشن مہمات کون سی سستی ہو سکتی ہیں۔ مختلف علاقوں میں انتخابی مہمات کے الگ الگ اخراجات ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ایک امیدوار کی انتخابی مہم پر 750 ملین ڈالر تک خرج ہو جاتے ہیں۔ انتخابی عمل کے دوران بھاری اخراجات جہاں قومی خزانیپر پہلے ہی بوجھ ثابت ہوتے ہیں، وہیں ان اخراجات کے بعد منتخب ہونے والے قومی نمائندے پچیس منٹ کے اجلاس کے عوض 20 ملین ڈالرز کی رقم تو وصول کریں گے۔