حکمرانوں، سیاستدانوں کیلئے مدد کی اپیل؟

میرا خیال ہے کہ نواز شریف کی مدد کے لئے ایک اپیل اپنے کالم میں شائع کروں۔ وہ آج کل بہت غریب ہو گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے اثاثے ظاہر کرنے کے حوالے سے فرمایا ہے کہ نہ میرے پاس اپنی گاڑی ہے نہ بنک بیلنس ہے۔ پچھلے دنوں ماہ رمضان میں زکوٰۃ کے حوالے سے میں نے کالم میں مختلف لوگوں اور اداروں کو زکوٰۃ دینے کی اپیل کی تھی۔ مجھے پہلے پتہ ہوتا تو میں اس کالم میں مخیر حضرات سے کہتا کہ وہ نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کا خیال رکھیں۔ عمران خان اور سب سیاستدان اسمبلی ممبران وزیر شذیر صاحبان اور تمام چھوٹے موٹے حکمران اور افسران کا خیال رکھیں۔ انہیں زکوٰۃ میں اپنا حصہ دیں۔ انہیں خیرات سے بھی نوازیں۔ ’’نوازنے‘‘ کے لفظ سے دھیان صرف نواز شریف کی طرف جاتا ہے وہ جب وزیراعظم بنتے ہیں تو سرکاری خزانے سے خوب نوازتے ہیں۔ اپنے لئے تمام احسانات کا بدلہ چکاتے ہیں۔ کسی ’’بڑے‘‘ ادارے کی سربراہی بھی نوازنے کی ڈیل میں آتی ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال کرکٹ بورڈ میں نجم سیٹھی کی چیئرمینی ہے۔ چھوٹی موٹی کونسلوں کی چیئرمینی بھی بہت مفید ہوتی ہے۔
مگر اب نوازنے کا معاملہ یہ بھی ہے کہ نواز شریف کو اپنی زکوٰۃ اور خیرات سے نوازا جائے تاکہ وہ کوئی چھوٹی موٹی ذاتی گاڑی خرید لیں اور کچھ تو ان کا بنک بیلنس ہو۔ ان کے خاندان کے دوسرے لوگ امیر کبیر ہیں تو ہوتے رہیں نواز شریف کا ان سے کیا لینا دینا ہے۔ ان کے  بچے انگلینڈ کے چند بڑے پراپرٹی ڈیلرز میں سے ہیں۔ سعودی عرب میں ان کے بیٹے کی سٹیل مل ہے مگر یہ نواز شریف کے اثاثوں میں تو شمار نہیں ہوتا۔ ایک ہزار ایکڑ رائے ونڈ محل بھی ان کے نام نہیں ہو گا لہٰذا یہ بھی ان کا اثاثہ نہیں ہے۔
مجھے کوٹ رادھا کشن سے جاوید صاحب نے فون کیا اور بتایا کہ ہم دوست مل کر فطرانے کی رقم جمع کر رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ وہ نواز شریف کو کیسے بھجوائیں۔ ہماری خواہش ہے کہ یہ معمولی رقم نواز شریف کو ذاتی طور پر مل جائے تاکہ ان کی غربت اور تنگدستی میں کچھ تو کمی آئے۔ میری طرف سے گزارش مریم نواز سے بھی ہے کہ وہ تھوڑا سا قرضہ نواز شرف کو بھی دے دیں تاکہ وہ زندگی میں کوئی کام کر سکیں۔ انشاء اللہ بہت تھوڑی مدت میں اس قابل ہو جائیں گے کہ اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں۔ چھوٹی موٹی پرانی گاڑی خرید لیں تاکہ آنے جانے میں آسانی ہو۔ وہ ماشاء اللہ ابھی جوان ہیں اور جوانوں سے زیادہ مستحق ہیں۔ ان کے ساتھیوں کی بھی مدد کی جائے۔ وہ ان سے بھی زیادہ غریب ہوں گے۔ مجھے یاد آیا کہ 2012ء میں نواز شریف نے 24 لاکھ  ہزار 559 روپے انکم ٹیکس ادا کیا تھا۔ اسی سال 35 ہزار 747 روپے زرعی ٹیکس ادا کیا تھا۔ انہوں نے 2012ء میں 26 کروڑ 16 لاکھ 59 ہزار کے اثاثے ظاہر کئے تھے۔ صرف ایک سال اور کچھ مہینوں کے دوران سب کچھ ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ ان کے گھر میں کوئی چوری ہوئی ہو گی جو انہوں نے ظاہر نہیں کی اور نہ کسی تھانے میں رپورٹ درج کرائی ہو گی کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ آج تک بہت کم بلکہ بہت ہی کم کوئی چوری پکڑی گئی ہے نہ مال مسروقہ برآمد ہوا ہے۔ ہماری پولیس سیاسی احکامات کی تعمیل پروٹوکول  اور سکیورٹی سے فارغ ہی نہیں کہ اصل کام کر سکے اور عام غریب لوگوں کو کوئی فائدہ ہو۔ پولیس صرف حکمرانوں اور افسران کی خدمت خاطر کے لئے ہوتی ہے۔ عام لوگوں پر صرف لاٹھی چارج کیا جاتا ہے اور سیدھی گولیاں ماری جاتی ہیں۔
کچھ دن پہلے خبر آئی تھی کہ یہ معاملہ عدالت میں بھی چیلنج کر دیا گیا ہے۔ وزیراعظم ہائوس کے لئے کروڑوں روپے کی گاڑیاں اور لاکھوں کے محافظ کتے خریدے جا رہے ہیں۔ یہ کس کے اثاثے ہوتے ہیں؟ یہ ریاست کے اثاثے ہیں تو ریاست کس کی ہے۔ ریاست اس کی ہوتی ہے جس کی حکومت ہوتی ہے۔ حکمران اور افسران اور ان کے لواحقین سرکاری چیزوں کو ذاتی ملکیت کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ بیوی کی الگ گاڑی بچوں کے لئے الگ گاڑیاں ہوتی ہیں۔ کچھ گاڑیاں صرف انتظار میں کھڑی رہتی ہیں اور ان کی باری ایک بار بھی نہیں آتی۔ ایک شعر یاد آیا جسے تھوڑی سی ترمیم کرکے پڑھا جاتا ہے
نہ میرا پاکستان ہے نہ تیرا پاکستان ہے
یہ اس کا پاکستان ہے جو صدر پاکستان ہے
شرط یہ ہے کہ صدر پاکستان جنرل مشرف اسحاق خان بھٹو صاحب (وزیراعظم بننے سے پہلے) یا صدر زرداری ہوں۔ زرداری کے نام کا حصہ ہی اب ’’صدر‘‘ ہے۔ وہ ریٹائر ہونے کے بعد بھی ’’صدر‘‘ ہیں۔ صدر ممنون کے لئے یہ شعر بامعنی نہیں ہے۔ وزیراعظم نواز شریف ہوں تو صدر کا معاملہ اور بے معنی ہو جاتا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے اپنے پیشہ کے طور پر زراعت اور سیاست لکھا ہے اس میں حکومت کو بھی شامل کر لیا جاتا تو بات مکمل ہو جاتی۔ نواز شریف ذاتی طور پر اور فطری طور پر بزنس مین ہیں۔ وہ کاروبار عشق کو بھی کاروبار حکومت کی طرح سمجھتے ہیں۔ جتنے ہمارے لوگ حکومت میں یا اسمبلیوں میں ہیں وہ بھی بہت غریب ہیں۔ ان کے اثاثے جو ظاہر کئے جاتے ہیں انہیں دیکھتے ہوئے غریب لوگ بھی شرما جاتے ہیں اور اپنے آپ کو امیر کبیر سمجھنے لگتے ہیں۔
اسلام آباد میں بھی ایک وزیرستان میں یہاں وزیروں کی رہائش گاہیں ہیں۔ اب معلوم ہوا ہے کہ یہ بیچارے آئی ڈی پیز ہیں۔ وی آئی پیز اور آئی ڈی پیز میں فرق مٹ گیا ہے۔ یہ لوگ اپنے ذاتی اور آبائی گھر چھوڑ کر یہاں آ بسے ہیں ان کی پوری مدد کرنا ہمارا فرض ہے۔ ویسے یہ اپنی مدد میں خود کفیل ہیں۔ آگ لگنے یا خودکش حملے کے بعد لوڈشیڈنگ میں یا سستے رمضان بازاروں میں۔ چوری ڈاکے اور قتل و غارت کی وارداتوں میں روتے تڑپتے لوگوں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ سب کام عام غریب لوگ اپنی مدد آپ سے کرتے ہیں۔ اپنی مدد میں خود کفیل لوگ اپنی مدد سے فارغ نہیں ہوتے کہ دوسروں کی بھی مدد کر سکیں وہ صرف عام لوگوں سے ووٹ کے طلبگار ہوتے ہیں۔ اس کے بعد نوٹ بناتے ہیں انہیں کسی تعاون کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود جب اپنے اثاثے ظاہر کرتے ہیں تو ان پر ترس آتا ہے۔ بیچارے بہت غریب ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...