لاہور (سید شعیب الدین سے) سپریم کورٹ کے احکامات پر پنجاب میں بلدیاتی الیکشن 20 ستمبر کو منعقد ہونے ہیں مگر انتظامی امور کے حوالے سے الیکشن کمیشن سرد مہری اور بے عملی کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ صوبائی الیکشن کمیشن پنجاب میں کئی اہم عہدوں پر عرصہ سے تعیناتیاں نہیں کی جارہیں۔ سیاسی حلقوں میں اسی حوالے سے یہ سوال بھی گردش کررہا ہے کہ گزشتہ 7 برسوں سے بلدیاتی انتخابات سے گریز کرنے والی مسلم لیگ (ن) کی صوبائی حکومت اور الیکشن کمیشن کسی مفاہمت کے تحت تاخیر کی پالیسی پر عمل پیرا تو نہیں۔ پنجاب میں صوبائی الیکشن کمشنر کا عہدہ 17 دسمبر کو صوبائی الیکشن کمشنر محبوب انور کی ریٹائرمنٹ سے خالی ہوا تھا جس کے بعد جائنٹ پراونشل الیکشن کمشنر ظفر اقبال کو صوبائی الیکشن کمشنرکا اضافی چارج دیا گیا اور وہ 7ماہ سے دونوں عہدوں پر بیک وقت کام کررہے ہیں۔ صوبائی الیکشن کمشن میں ڈائریکٹر الیکشن کمشن کا اہم عہدہ 2 برسوں سے ڈپٹی ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ الیکشن کا عہدہ ڈیڑھ ماہ سے خالی ہے جبکہ الیکشن کمشن مسلسل کہہ رہا ہے انکی تیاریاں مکمل ہیں۔ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہو رہے ہیں اور ایسا پنجاب کی بلدیاتی انتخابات کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ بلدیاتی انتخابات کی نسبت یہ مشکل الیکشن ہوں گے۔ مشرف دور میں بلدیاتی انتخابات ایک دن کی بجائے دو مرحلوں میں کرائے گئے تاکہ الیکشن کمیشن بہتر انتظامات کر سکے۔ پنجاب حکومت بھی ایسا کرنے کی خواہاں ہے مگر 20 ستمبر کی تاریخ عیدالاضحی سے صرف 5 دن پہلے آرہی ہے لہٰذا انتخابات دو مراحل میں ہوئے تو پہلا مرحلہ جولائی کے دوسرے ہفتے میں ہوگا یا پھر عید الاضحی کے بعد دوسرے مرحلے کے انتخابات کرائے جا ئیں گے۔ پنجاب میں جماعتی انتخابات کیلئے صوبائی حکومت کو عدالتی احکامات کی وجہ سے ’’مجبور‘‘ ہونا پڑا ہے۔ 2013ء کے پنجاب حکومت کے بلدیاتی قانون میں انتخابات غیرجماعتی بنیادوں پر کرائے جانے تھے مگر اس شق کو عدالت عالیہ میں چیلنج کیا گیا اور پھر حکومت کو بلدیاتی قانون بدلنے پر مجبور ہونا پڑا۔ مسلم لیگ (ن) کو پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے امیدواروں کا بھرپور مقابلہ کرکے ہی کامیابی حاصل کرنا ہوگی۔