’’ایدھی فائونڈیشن … امید کا چراغ بجھنے نہ پائے‘‘

8جولائی کو عبدالستار ایدھی صاحب اس دنیا سے کروڑوں سوگوار چھوڑ کر مالک حقیقی سے جا ملے۔ انہیں فقیدالمثال ریاستی پروٹوکول کیساتھ سپرد خاک کیا گیا۔ دنیا سے رخصت ہوتے وقت زادِراہ کے طور پر کروڑوں دعائیں انکے ساتھ تھیں جبکہ لمبی عمر کی زنبیل میں بھی اللّٰہ کے پسندیدہ اعمال، اسکی مخلوق سے محبت کا خزانہ تھا۔ جو سب کو بلاشبہ نظر آتا ہے صرف وہ ہی 20,000 لاوارث بچوں کو ماں باپ کا پیار، 60,000 بے گھر لوگوں کو سہارا،20,000 لاوارث گلی سڑی لاشوں کو با عزت دفنانا اور 50,000ن شیئوں کو بحال کرنا ہے۔ اسکے علاوہ ہر جگہ زخمی انسانوں اور لاشوں کو اٹھانے کیلئے ان کا ایک بہت بڑا ایمبولینس نیٹ ورک موجود ہے۔ ایدھی سنٹرز سے آج بھی ہزاروں انسانوں کی روزی روٹی، شیلٹر اور امیدیں وابستہ ہیں۔ سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ اتنے بڑے کام کیلئے نہ تو حکومت سے کبھی مالی امداد لی اور نہ درویشانہ زندگی سے لمحہ بھر دور ہوئے۔ قومی خدمات کے اعتراف کے طور پر کئی ایک اقدامات کئے جا رہے ہیں مگر ابھی تک کوئی بھی انکے شایانِ شان نہیں۔کیا ہی اچھا ہو کہ اسلام آباد کے نئے ائیر پورٹ کانام ایدھی انٹرنیشنل ائیر پورٹ رکھ دیا جائے۔
ایدھی صاحب کے سفر آخرت سے تین اور چیزیں کھل کر سامنے آئی ہیں ۔ایک تو یہ کہ خلق خدا کی بہتری میں ہر قدم پر خالق کائنات خود سہارا بن جاتا ہے۔دوسرا پاکستانی قوم عظیم ہے۔دل سے ایسے انسانوں کی عزت کرتی ہے اور اسطرح کے نیک کاموں میں اگر آدمی بے لوث ہو تو کھلے دل سے مال بھی خرچ کرتی ہے تیسری میری امید ہے اگر کبھی میری قوم کو ایماندار اور عوام سے محبت کرنے والی قیادت میّسر آگئی تو یہ قوم نہ وسائل کم ہونے دیگی اور نہ ہی قومی یکجہتی کمزور ہوگی۔
جہاں ایدھی صاحب کو پوری قوم اسقد ر خراج عقیدت پیش کر رہی ہے وہاں سوشل میڈیا پر کچھ لوگ انہیں کافر ، ملحد اور جہنمی وغیرہ کے خطابات سے بھی نواز رہے ہیں۔مجھے زیادہ سمجھ تو نہیں آئی لیکن انکی سوچ بقول شاعر کچھ یوں لگی ہے-:
یہ انساں کو مذاہب سے پرکھنے کا مخالف ہے
یہ نفرت کے قبیلوں میں نہیں رہتا یہ کافر ہے
یہ تتلی فاحشہ ہے پھول کے بستر پہ سوتی ہے
یہ جگنو شب کے پردے میں نہیں رہتا یہ کافر ہے
ان کا سب سے بڑا استدلال یہ ہے کہ انسان جب تک مکمل مسلمان نہیں ہوتا، اسکے خرچ کرنے سے اسے اگلے جہان میں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔مگر وہ یہ نہیںبتاتے کہ (i) انہوں نے یہ فتوے ایدھی کی زندگی میں جاری کر کے یہ فاؤنڈیشن بند کیوں نہ کروائی تاکہ انکی اپنی خدمات جو یقیناًایدھی سے بہتر ہوتیں، وہ آج تک ہم سے چُھپی نہ رہتیں۔(ii) جب کسی شخص کے متعلق آخرت میں حصّہ نہ ہونے کا کہا جاتا ہے تو کیا کسی جگہ پر یہ بھی لکھا ہے کہ اسے نیکی کے کاموں سے روک دیا جائے۔ ایسا تو نہیں کہ اس معاملے کو اللّٰہ نے اپنے اور اسکے درمیان چھوڑ دیا اور خلق خدا کو اس سے فائدہ اٹھاتے رہنے دیا ہو۔(iii) قرآن پاک کی سورہ النساء آیت نمبر 94میں لکھا ہے کہ ’’جو تمہیں سلام کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مسلمان نہیں‘‘۔تو نوّے سالہ زندگی میں مسلمان تسلیم کئے جانیوالے کو بعد از موت کسطرح کافر کہا جاسکتا ہے۔(iv) اگر کوئی زندہ بچہ لاوارث مل جائے تو اسلام کی رو سے اسے زندہ رکھا جائے یا قتل کر دیا جائے ؟ (v)کس نے جنت اور جہنم کا فیصلہ کرنا ہے؟ ایک ہی تو ذات ہے جسکے ہاتھ میں خیر ہے۔ایدھی صاحب پر فتوے دینے والوں نے تو اُن ججز کی یادتازہ کرادی جنھوں نے مشرف کو آئین میں ترامیم کا اختیار دیا تھا حالانکہ یہ اختیار دینا انکے اپنے آئینی اختیارات میں بھی نہ تھا۔
میری سب اہل ِ وطن سے دردمندانہ اپیل ہے کہ ایدھی صاحب کے اگلے جہان کے معاملات اللّٰہ پر چھوڑ دیں اور اس بے سود بحث کو سمیٹ کر آگے بڑھنے پر ذہنی توانائیاں صرف کردیں۔ایدھی صاحب ایک بہت بڑی آرگنائزیشن چھوڑ کر گئے ہیں جسطرح کی 68 سال میں کوئی حکومت بھی قائم نہ کرسکی۔معاشرہ اور سرکاری ادارے، ہسپتال وغیرہ سب اس پر انحصار رکھتے ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمیں اسے قائم و دائم رکھنا ہے یا اختلافی بحث سے آغاز کر کے ،الزامات کے زور سے دھکیلتے ہوئے اسے کچرے کے ساتھ لیاری ندی میں بہا دینا ہے۔اگرچہ ہم اکثر اداروں کیساتھ اسی طرح کرتے ہیں مگر امید ہے ہم اس قومی جذبات سے وابستہ ادارے کو سورہ و الضحی کی روشنی میں قائم رکھ سکیں گے۔
ہمیں دو پہلوؤں سے اسے تحفظ دینا ہے ۔ ایک مالی پہلو اور دوسرا انتظامی ۔ مالی پہلو میں مشکلات یہ آئیں گی کہ ایدھی صاحب کی شخصیت سے لوگ جتنے مانوس تھے اور جسطرح انکے ہاتھ پر امداد رکھنا اپنے لئے اعزاز سمجھتے تھے وہ جذبہ فی الحال نہ فیصل صاحب کیلئے ہوگا اور نہ ہی وہ باپ کی طرح غریبوں کیلئے غریبوں کے آگے ہاتھ پھیلا سکیں گے۔لہٰذا ناداروں کیلئے آمدنی میں قدرے کمی آسکتی ہے جو پوری قوم کیلئے چیلنج ہوگا۔ انتظامی پہلو میں مشکلات اصولاً تو نہیں آنی چاہیں ۔ کیونکہ ایک موثر سسٹم زمین پر کام کررہا ہے۔ مگر ایدھی صاحب کے جانے سے کئی کارندے راہِ راست پر رہنے کیلئے وہ دباؤ محسوس نہیں کرینگے جسکے اندر وہ چل رہے تھے۔ دوسرا الزامات کا ریلا ہوگا جو فیصل کی ذات سے لیکر اخراجات تک پریشان کرتا رہے گا۔ان دونوں معاملات میں ہمیں اپنی ذمہ داری سمجھ کر معاونت کرنی ہوگی۔
میں سمجھتا ہوں مالی طور پر تمام سپورٹ Documented ہو اور عوام کی شمولیت کو آسان بنانے کیلئے موبائل فون پر SMSکا استعمال کیا جائے۔ کسی نمبر پر 10روپے کسی پر50کسی پر 100کسی پر 500 روپے صدقہ دینے کی سہولت موجود ہو۔اس سے زیادہ رقم کا چندہ صرف چیک کے ذریعے سنٹرل اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہوسکے۔لوکل سنٹرز صرف قربانی کی کھالیں یا اسطرح کا میٹیریل جمع کرنے کی مجاز ہوں ۔ میڈیا ان نمبروں کی مفت تشہیر کرے اور مخیر حضرات اپنے شہروں میں پوسٹر وغیرہ لگا کر لوگوں کو راغب کریں۔انتظامی معاملات میں بہترین نسخہ شفافیت ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن میں جو لوگ کام کر رہے ہیں وہ یقیناً ایماندار اور قابل ہونگے مگر سسٹم کو مزید مضبوط اور دیرپا بنانے کیلئے انتظامی معاملات میں پڑھے لکھے ان لوگوں کا عمل دخل بڑھا یا جائے جو اسی ادارے میں پڑھ کر جوان ہوئے ہوں اور جنہوں نے یتیمی کے درد کا احساس زندہ رکھا ہوا ہو۔خصوصاً وہ لوگ جنکے باپ کا نام عبدالستار ایدھی اور ماں بلقیس ایدھی درج ہے۔اسکے علاوہ معاشرے سے نیک سیرت اور وافر مالی امداد فراہم کرنے والوں کا بورڈ انکے معاملات کی نگہداشت کرے۔
ایدھی فاؤنڈیشن ایک منظم رفاعی ادارے کی حیثیت سے پاکستانی سوسائٹی کا ناگزیر جزو بن چکا ہے۔ یہ وہ چراغ ہے جس سے انسانیت کا چہرہ منّور ہوتا ہے لہٰذا ہمیں اسے ہر قیمت پر روشن رکھنا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...