عید کے موقع پر آبائی علاقے منڈی بہا¶الدین جانا ہوا تو وہاں پر سڑکوں کے بچھے جال کو دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔ ضلع منڈی بہا¶الدین نے گزشتہ 15 سالوں میں جو ترقی کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کے دور حکومت میں سپیشل سیکرٹری ٹو سی ایم محمد خان بھٹی کا طوطی بولتا تھا۔ اسے اس قدر اختیارات حاصل تھے کہ بسا اوقات گمان ہوتا کہ سی ایم پنجاب یہی ہے لیکن محمد خان بھٹی نے اپنے پسماندہ علاقے میں خصوصی طور پر انفراسٹرکچر پر توجہ دی اور دریائے چناب کے اردگرد مضبوط بند بنا کراپنے گاﺅں فرخ پور اور اسکی بغل میں بسنے والے قصبات کو پانی سے محفوظ بنایا پھر سڑکوں پر توجہ دی اور گجرات سے لے کر سرگودھا تک منڈی بہا¶الدین کی طرف آنے والی تمام سڑکوں کو کارپٹ کیا۔ کھیتوں کی طرف جانے والے کھالوں کو پختہ بنوایا نوجوانوں کو دھڑا دھڑ ملازمتیں دیں۔ پرویز الٰہی کی حکومت جانے کے بعد محمد خان بھٹی سیکرٹری پنجاب اسمبلی تعینات ہوئے لیکن گزشتہ دس سالوں سے وہ او ایس ڈی ہیں اگر پنجاب میں میاں برادران کی حکومت رہی تو پھر گھر بیٹھ کرہی سروس پوری ہو گی ۔آہ! کس قدر ستم ظریفی ہے۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں منڈی بہا¶الدین سے گوندل برادران کا ستارہ چمکنا شروع ہوا تو ایک مرتبہ نذر محمد گوندل وزیر اعظم بننے کے خواب بھی دیکھنے لگے لیکن زرداری صاحب نے انہیں وزارت زراعت دیکر ٹال دیا بعدازاں صرف اسلام آباد کی لولی لنگڑی وزارت دیکر انہیں بہلایا گیا۔ اس دور میں گوندل صاحب نے بڑے منصوبوں کا اعلان کیا لیکن ایک منصوبہ بھی زمین پر نظر نہیں آیا اور تو اور انکے اپنے گھر کے سامنے سے گزرنے والی سڑک بھی پانچ سال تک کھنڈرات کا منظر پیش کرتی رہی۔ کسی دور میں منڈی بہا¶الدین پیپلز پارٹی کا منی لاڑکانہ تھا۔ ضلع کی دو ایم این اے اور 6ایم پی ایز کی سیٹوں پر پی پی براجمان تھی لیکن ایم پی اے طارق محمود علوآنہ سے لےکر ایم پی اے آصف بشیر بھاگٹ تک اور طارق تارڑ ایم این اے سے لےکر نذر محمد گوندل تک کوئی بھی عوام کے دل میں جگہ بنانے میں کامیاب نہ ہوا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد مسلم لیگ ن جب سے اقتدار میں آئی ہے تب سے ایک مرتبہ پھر منڈی بہا¶الدین کی قسمت جاگ اٹھی ہے۔ ناصر اقبال بوسال ایم این اے اور حمیدہ وحیدالدین صوبائی وزیر برائے ترقی خواتین نے جس قدر ضلع بھر میں ترقیاتی کام کروائے ہیں اس نے ایک مرتبہ پھر عوام کے دل موہ لیے ہیں۔ منڈی بہا¶الدین کمپلیکس سے نہر کے کنارے بننے والی سڑک نے میانوال رانجھا، کدھر شریف، کھنب خورد اور میکے وال کے باسیوں کے نہ صرف سفر کو آسان بنایا ہے بلکہ ان کی سوئی قسمت کو بھی چار چاند لگ گئے ہیں پھر ”ست سرے“ سے نکلنے والی سڑک نے درجنوں گا¶ں کے باسیوں پر ترقی کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ اس کا کریڈٹ ناصر اقبال بوسال ایم این اے کو جاتا ہے جبکہ پھالیہ سے منڈی بہا¶الدین بننے والی دو رویہ سڑک کا سہرا ممتاز احمد تارڑ ایم این اے کے سر ہے۔ پیر محفوظ شاہ مشہدی ایم پی اے نے کٹھیالہ شیخاں، کدھر شریف، بھکی شریف اور اسکے گردو نواح میں پھیلے گا¶ں میں سولنگ لگوا کر اپنی اگلے سال کی سیٹ پکی کر لی ہے۔ ترقیاتی کاموں کے وجہ سے ووٹر کے رجحان تبدیل ہوئے ہیں تازہ مثال گوجرہ میں بننے والی دو رویہ سڑک نے بلدیاتی الیکشن میں گوندل برادرز کو دن میں تارے دکھا دیئے ہیں۔ ان تمام ترقیاتی فنڈز میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی خصوصی شفقت کے ساتھ ساتھ سیکرٹری ٹو سی ایم امداد اللہ بوسال کو بھی کریڈٹ جاتا ہے جبکہ سابق چیف سیکرٹری پنجاب خضر حیات گوندل کی کمال شفقت سے آج ضلع بھر میں خوشحالی آ چکی ہے۔ منڈی بہا¶الدین میں ترقیاتی کام دیکھ کر یہ تاثر ماند پڑ گیا ہے کہ شریف برادران نے پنجاب صرف لاہور ہی کو سمجھ رکھا ہے اور سارے فنڈز لاہور پر خرچ کئے جا رہے ہیں۔ ضلع منڈی بہا¶الدین تین تحصیلوں 65یونین کونسلوں اور 11 تھانوں پر مشتمل ہے ۔حاجی وحید پرویز لکھتے ہیں کہ1506عیسوی میں صوفی صاحب بہاو¿الدین ، پنڈی شاہ جہانیاں سے اس علاقہ میں آئے تو انہوں نے ایک بستی کی بنیاد رکھی جس کا نام پنڈی بہاو¿الدین رکھا گیا جسے اب پرانی پنڈی کے نام سے جانا جاتا ہے انیسویں صدی میں یہ علاقہ برطانوی حکومت کے زیر تسلط آیا ۔اس علاقے میں کچھ زمین بنجر اور غیر آباد پڑی تھی۔ 1902 میں انگریز سرکار نے آبپاشی کے نظام کا ایک بڑا منصوبہ شروع کیا تو اسی منصوبے کے تحت نہر لویر جہلم بھی کھودی گئی اور اس سے علاقے کو سیراب کیا گیا.علاقے کی چک بندی کی گئی۔ 51 چک بنائے گئے اور زمین ان لوگوں میں تقسیم کی گئی جنہوں نے سلطنت برطانیہ کیلئے کام کیا تھا. بیسویں صدی کے آغاز میں مسلمان،ہندو اور سکھ تاجر و زمیندار یہاں آ کر آباد ہونے لگے۔ 1916ءمیں حکومت برطانیہ نے اپنے دفاعی اور تجارتی مفاد میں پنڈی بہاوالدین ریلوے سٹیشن قائم کیا۔ 1920ءمیں چک نمبر 51 کو منڈی بہاوالدین (مارکیٹ بہاوالدین) کا نام دینے کا اعلان کیا گیا- 1923ءمیں قصبہ کی ماسٹر پلان کیمطابق دوبارہ تعمیر کرتے ہوئے گلیوں اور سڑکوں کو سیدھا اور کشادہ کیا گیا۔1924ءمیں پنڈی بہاوالدین ریلوے سٹیشن کا نام منڈی بہاوالدین رکھا گیا۔1960ءمیں سب ڈویڑن کا درجہ دیا گیا۔ 1963ءمیں رسول بیراج اور رسول قادرآباد لنک نہر کا منصوبہ شروع کیا گیا ۔ یہ منصوبہ منڈی بہاوالدین کی کاروباری نشوونما میں اضافے کا سبب بنا۔ 1993ءمیں وزیر اعلی پنجاب میاں منظور احمد وٹو نے منڈی بہاوالدین کو ضلع کا درجہ دینے کا اعلان کیا۔ 326 قبل مسیح میں سکندر اعظم اور راجہ پورس کے درمیان مشہور اور تاریخی لڑائی منڈی بہاوالدین کے مغرب میں دریائے جہلم کے جنوبی کنارے کھیوا کے مقام پر لڑی گی۔ اس لڑائی میں راجہ پورس کو شکست ہوا جسکے نتیجہ میں سکندر اعظم کو دو شہر ملے ایک اس جگہ پر تھا جہاں ان دنوں” مونگ“ ہے اور دوسرا ممکنہ طور پر جہاں” پھالیہ“ ہے ۔پھالیہ سکندر اعظم کے گھوڑے” بیوس پھالس“ کے نام کی بگڑی ہوئی شکل ہے ۔کچھ مورخین کے خیال کےمطابق وہ دو شہر جلالپور اور بھیرہ والی جگہ پر تھے ۔منڈی بہاوالدین سے تھوڑے فاصلے پر چیلیانوالہ کا وہ تاریخی مقام ہے جہاں انگریزوں اور سکھوں کے درمیان 1849ءمیں دوسری لڑائی ہوئی تھی‘ یہ علاقہ پسماندہ تھا لیکن آج اس ضلع کی پسماندگی ختم ہو چکی ہے۔ اگراسی طرح جنوبی پنجاب کی احساس محرومی کو ختم کیا جائے تو یقینی طور پر تختہ لاہور پر کوئی بھی انگلی نہیں اٹھائے گا۔
ترقی کی روشن مثال
Jul 15, 2016