نواز شریف سے گزارش ہے کہ وہ اسحاق ڈار پر اتنا اعتماد نہ کریں۔ مگر اب موروثی سیاست بڑھتی جاتی ہے۔ اب سمدھی بھی موروثی سیاست کا حصہ ہیں۔
پچھلے دنوں ایم این اے عارفہ خالد سے بات چیت ہوئی۔ ہم نے اکٹھے کھانا کھایا۔ عارفہ نے بتایا کہ اب وہ سیاست کے علاوہ کوئی کام کرنا چاہتی ہیں۔ وہ پاکستانی سیاست کے سٹائل سے بیزار لگ رہی تھیں۔ اسمبلی کے ممبران بھی ذاتی مفادات کے علاوہ کسی معاملے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ ان سے تو ایک عام جلسے کے سامعین بہتر ہوتے ہیں جو روٹین کی تقریروں کے دوران سوئے رہتے ہیں۔
اسحاق ڈار بات کرنے کے لئے جو انداز اختیار کرتے ہیں وہ لوگوں میں پسندیدہ نہیں ہے۔ یہ نواز شریف کا تیسرا زمانہ ہے۔ کسی دور میں وہ اپنی مدت اقتدار پوری نہیں کر سکے۔ اب بھی ان کے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ وہ چوتھی بار اسی صورت میں وزیراعظم بنیں گے ۔ ہر دور میں نواز شریف نے کسی نہ کسی اپنے عزیز پر اعتماد کیا اور اس نے نواز شریف کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔
اسحاق ڈار نے بڑے فخر سے بتایا کہ زرمبادلہ کے ذخائر -23ارب ڈالر سے بڑھ گئے ہیں مگر یہ نہیں بتایا کہ اس میں سے عام لوگوں کو ایک ڈالر کا بھی فائدہ نہیں ہوا۔ ایک غریب اور پسماندہ ملک میں بیچارے لاعلم لوگوں کو اس طرح کی باتیں بتانے سے کیا فائدہ ملتا ہے۔ ڈار صاحب کو پتہ ہے کہ پاکستان کے لوگ ڈاروں وچھڑی کونج کی طرح کُرلا رہے ہیں۔ ان کی بات بھی سنیں۔ وہ کہتے ہیں ہمارے پاس خزانہ تو ہے نہیں مگر وزیر خزانہ ہے۔ ڈار صاحب قومی اسمبلی میں جس طرح بات کرتے ہیں کیا وہاں ایک بھی رکن اسمبلی ایسا نہیں ہے کہ وہ ڈار صاحب سے کہے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ احتساب سب کا ہونا چاہئے۔ میری گزارش ہے کہ سب سے پہلے وہ اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کریں۔
یہ سوال آج کل گردش میں ہے جب ہمارے حالات گردش میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان امریکہ کا دوست ہے یا دشمن مگر سوال یہ بھی ہے کہ امریکہ پاکستان کا دوست ہے یا دشمن۔ پاکستانی حکام امریکہ کو دوست سمجھتے ہیں۔ پاکستانی عوام امریکہ کو دشمن سمجھتے ہیں۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے لئے عمر بھر جنگ کرنے والی بہادر خاتون ایڈووکیٹ عاصمہ جہانگیر نے سرینگر مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا ہے اور واپس آ کے کہا کہ کشمیری بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ میں نے فوق کاشمیری کی ادبی صحافتی خدمات پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا تھا۔ بھارت گیا مگر ہندوئوں نے مجھے مقبوضہ کشمیر کا ویزہ نہیں دیا تھا۔ فوق کشمیری کے لئے ڈاکٹریٹ کے مقالے کی وجہ سے مجھے امید تھی کہ وہ مجھے سرینگر جانے دیں گے۔ فوق صاحب نے کشمیر کے حوالے سے سینکڑوںکتابیں لکھیں اور باقاعدگی سے کئی رسالے شائع کئے تھے۔ ان کی کئی کتابوں کے دیباچے علامہ اقبال نے لکھے ہیں۔
عاصمہ جہانگیر ایک زبردست خاتون ہیں۔ مولویوں نے ان پر کئی بار فتوے لگائے مگر انہوں نے اپنی معرکہ آرائی جاری رکھی ہے۔ مجھے کشمیر نہ جانے دیا گیا کہ میں نے ویزے کے لئے اپنے کاغذات میں مقبوضہ کشمیر لکھ دیا تھا۔ میں پاکستان کے لئے جان قربان کر سکتا ہوں مگر پاکستان میں سیاسی صورتحال سے بیزار ہوں۔ یہ بیزاری پاکستانی حکام کے طرز حکومت اور حکومت کے خوشامدیوں کے طرز زیست سے ہے۔ آزادی کی جدوجہد میں جینا آزاد ہونے کے بعد کی زندگی سے بہت بہتر ہے۔
آج کل خواجہ آصف کہیں دکھائی نہیں دے رہے نہ سنائی دے رہے ہیں۔ شاید اسے شیریں مزاری نے بہت ڈرا دیا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نواز شریف کے لئے استقبالیہ قطار میں جہاں چودھری نثار کھڑے تھے وہ خواجہ آصف کی جگہ تھیں؟ نواز شریف کا استقبال کرنے والوں میں عابد شیر علی بہت زوروں میں تھا۔ وہ نواز شریف کے رائے ونڈ چلے جانے کے بعد بہت فخر اور مستی سے چل رہا تھا۔ بڑی شرارت سے چودھری نثار کے قریب سے گزرا۔
وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ بہت بوڑھے ہو چکے ہیں۔ اللہ انہیں لمبی عمر دے۔ ان کی ضد ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ سندھ کی کرسی پر ہی وفات پائیںگے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما شوکت بسرا نے کہا کہ اب پیپلز پارٹی کی ینگ قیادت آگے آئے گی۔ میں نے سوچا کہ قائم علی شاہ کی صاحبزادی نفیسہ شاہ کو ہی وزیر اعلیٰ سندھ بنائیں۔ قائم علی شاہ کو تو آرام کا موقع دیں۔
مری سے اورنگ زیب عباسی نے بتایا ہے کہ سرور خان کے ہردلعزیز بھائی صدیق خان کا جنازہ بہت بڑا تھا کسی سیاستدان کو اتنا بڑا جنازہ کم کم نصیب ہوتا ہے۔ صدیق خان نے پنجاب اسمبلی کی نشست پر بہت دلیر وزیر داخلہ چودھری نثار کو شکست دی تھی۔ اس کے جنازے میں چودھری صاحب کو جانا چاہئے تھا۔
مظفرگڑھ لنگر سرائے کی ایک خاتون نے اپنے بھائیوں سے بچانے کے لئے اپنے آشنا کو صندوق میں چھپا دیا۔ وہ مر گیا۔ صندوق میں بند خزانوں کا یہی حال ہوتا ہے۔ صندوق میں دم گھٹ کر مرنے سے بہتر تھا کہ وہ اپنی محبوبہ کے بھائیوں کی بندوق سے مر جاتا۔