مدارس میں جدید علوم، فیصلہ کسی دبائو کے تحت نہیں کیا: حنیف جالندھری

اسلام آباد (بی بی سی نیٹ نیوز) وزیر مملکت برائے تعلیم بلیغ الرحمان نے مدارس میں وفاقی بورڈ کے نصاب جدید علوم پڑھانے کے حوالے سے کہا ہے کہ اس فیصلے سے قبل اتحاد تنظیم المدارس کے ساتھ بہت عرصے سے بات چیت چل رہی تھی۔ ’یہ اتحاد 90 فیصد مدارس کی نمائندگی کرتا ہے۔ پہلے کئی مدارس میں مزاحمت بھی نظر آتی تھی، جیسے انگریزی کے پڑھائے جانے پر لیکن اب انگریزی پر بھی اتفاق ہو گیا ہے۔‘ اتحاد تنظیم المدارس کے زیرِ انتظام پانچ مکاتبِ فکر کے مدارس میں دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث اور جماعتِ اسلامی کے مدارس ہیں۔ اس تنظیم کے جنرل سیکرٹری مولانا حنیف جالندھری کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے بعض وفاق اور مدارس مرکزی دھارے کی تعلیم دے رہے تھے۔ ’یہ ہماری ضرورت ہے۔ یہ فیصلہ کسی دباؤ کی وجہ سے نہیں لیا گیا۔ یہ نصاب میں پہلے سے شامل تھا اور اب بہتر کیا جائے گا اور انٹرمیڈیٹ تک کیا جائے گا۔‘ اس سے پہلے کئی حکومتوں نے دنیاوی تعلیم متعارف کرنے کے لیے مذاکرات کیے تھے لیکن وہ ناکام رہے۔ ’پیپلز پارٹی اور سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں بھی اس پر بات چیت ہوتی رہی لیکن تسلسل نہیں تھا۔ کئی بحران آتے جاتے رہے اور ان پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ اس بار حکومت سنجیدہ نظر آرہی ہے۔‘ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ کے نوکریاں حاصل کرنے میں آسانی تو ہو گی لیکن بنیادی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔انسدادِ دہشت گردی کے ماہر عامر رانا کہتے ہیں کہ ’کیا رسمی تعلیم سے تبدیلی آئی گی؟ یہ مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ ان مدارس کے طریق? تدریس میں ہے، درسِ نظامی کے نصاب میں ہے، سوچ میں ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ اصلاحات میں فرقہ وارانہ شناخت کو ختم کرنا بھی بہت اہم ہے، جس پر کوئی کام نہیں ہوا۔ مولانا حنیف جالندھری کا کہنا ہے کہ ابھی یہ پہلا قدم ہے، وسائل اور تربیت یافتہ اساتذہ جیسی تفصیلات پر مزید کام باقی ہے اور اس پر کب تک عمل ہو گا، اس پر ابھی وہ مزید تفصیل نہیں بتا سکتے۔ نکٹا ریکارڈ کے مطابق، پاکستان میں قریباً 28 ہزار مدارس ہیں۔

ای پیپر دی نیشن