لاہور (فیضان علی وڑائچ+ ساجد ضیا+ سلمان ابروہو+ مبشر حسن+ وقت رپورٹ) پانامہ لیکس پر جے آئی ٹی کی رپورٹ نے شریف فیملی کی العزیزیہ سٹیل مل کے قیام پر سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ تفتیش کے دوران حسین نواز مل کے قیام کے حوالے سے اہم دستاویزات پیش کرنے میں ناکام رہے۔ جے آئی ٹی کے مطابق حسین نواز تحقیقات کے دوران العزیزیہ سٹیل کے قیام کے حوالے سے میمورنڈم، بینک قرضہ جات کے کاغذات اور فنانشل سٹیٹمنٹس پیش نہ کر سکے۔ علاوہ ازیں جے آئی ٹی نے ایف آئی اے میں وزیراعظم کی جانب سے غیرقانونی بھرتیوں کے کیس کی تحقیقات میں تیزی لانے کی سفارش کی ہے۔ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں وزیراعظم کیخلاف نیب، ایف آئی اے اور ایس ای سی پی سے موصول ہونے والے کیسز کا بھی جائزہ لیا۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے 1981-82 سے 2001-2002 کے دوران 20 سال میں ایف بی آر کو آمدن کا کوئی ریکارڈ فراہم کیا نہ انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرائی۔ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے حدیبیہ پیپر ملز کیس میں کردار کی وضاحت کرتے ہوئے کیس کو دوبارہ کھولنے کی سفارش کی ہے۔ اسحاق ڈار نے دوران تحقیقات بتایا کہ وہ ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتے تھے اور لندن میں قاضی فیملی کے پاس ٹھہرتے جو کہ خود ایک مڈل کلاس فیملی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنی پہلی ہجویری مضاربہ کمپنی 1990ء میں بنائی۔ نواز شریف جب بطور وزیراعظم چیمبر آف کامرس کی تقریب میں آئے تو ان کی پہلی مرتبہ قاضی فیملی کے ارکان سے ملاقات ہوئی۔ 1992ء کے شروع میں وزیراعظم نواز شریف نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ قاضی فیملی کے لوگوں کے نام پر بے نامی فارن کرنسی اکائونٹ کھولے جائیں جس پر میں نے تحفظات ظاہر کئے تو نواز شریف نے بتایا کہ قاضی فیملی اس پر راضی ہے تو پھر قاضی فیملی کے نام پر 4 بے نامی اکائونٹ کھولے گئے جس سے لاکھوں ڈالرز کی ٹرانزیکشنز کی گئیں۔ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ وہ شریف فیملی کی ایونفیلڈ کی جائیدادوں کے حوالے سے ملکیت کے شواہد اکٹھے کرنے میں ناکام رہی ہے۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی پانامہ لیکس پر رپورٹ میں حسین نواز اور ان کی مل ہل میٹل کی جانب سے نواز شریف کو بھجوائے جانے والی بطور تحفہ رقوم پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دو ہزار دس سے پندرہ کے دوران ہل میٹل کا اٹھاسی فیصد منافع نواز شریف کو بطور تحفہ بھجوایا گیا۔ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ کے والیم سیون میں واضح کر دیا کہ لندن میں کمپنیوں کے حوالے سے شریف خاندان نے وہ معلومات فراہم نہیں کیں جن کی ضرورت تھی۔ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے وہ اپنا موقف ثابت کرنے میں بھی ناکام رہے۔ کمپنیوں کی سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی کچھ نہیں بتایا گیا۔ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ کے والیم آٹھ میں جن کیسز کا جائزہ لیا ہے ان میں ایک ایم ای ایف ہیلی کاپٹر کی خریداری میں بے قاعدگی کا کیس بھی تھا۔ اس کیس میں وزیراعظم پر الزام تھا کہ انہوں نے ہیلی کاپٹر کی خریداری انکم ٹیکس میں ظاہر نہ کی اور ہیلی کاپٹر قطری شیخ عبدالرحمان بن ناصر الثانی کے نام خریدا گیا۔ ہیلی کاپٹر کی خریداری ان کی آمدن سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ جے آئی ٹی کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے ان کے سامنے اپنے خالو کو پہچاننے سے انکار کر دیا۔ شریف خاندان کی جائیداد میں لندن فلیٹس کا ذکر نہیں۔ وزیراعظم نے کہا انہیں لندن فلیٹس کے مالک کا بھی پتہ نہیں۔
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) پانامہ رپورٹ جمع کرانے کے بعد بھی جے آئی ٹی کے مسلسل اجلاس ہو رہے ہیں واجد ضیاء کی سربراہی میں جے آئی ٹی کا گزشتہ روز بھی اجلاس ہوا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم سپریم کورٹ کے حکم پر ختم ہو گئی جے آئی ٹی اب بھی بیرون ملک سے بعض خطوط کے جوابات کی منتظر ہے جے آئی ٹی کے تمام ارکان اجلاسوں میں شرکت کر رہے ہیں جے آئی ٹی کے کسی رکن نے واپس اپنے آفس رپورٹ نہیں کہا سپریم کورٹ نے انہیں حکم دے رکھا ہے کہ وہ اپنا کام ختم کریں جے آئی ٹی کے ارکان 17 تاریخ کو بھی سپریم کورٹ جائیں گے جے آئی ٹی مزید کوئی تحقیقات کا کام نہیں کر رہی۔ ٹاسک مکمل ہونے پر جے آئی ٹی اب کام سمیٹ رہی ہے۔
جے آئی ٹی اجلاس مسلسل جاری‘ نوازشریف کے کہنے پر بے نامی اکائونٹس کھلوائے گئے
Jul 15, 2017