اسلام آباد ( نمائندہ نوائے وقت+ خصوصی نمائندہ) سپریم کورٹ آف پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے یہ ملک کا ایک بڑا سکینڈل ہے کہ نجی کمپنیاں بنا کر اپنوں کو نوازا جاتا ہے،آپ سمجھتے ہیں آپ کی دوستیاں سامنے نہیں آئینگی، ہمارے پاس ایسے ریکارڈ ہیں سب سامنے آجائے، عدالت نے پی ایس او کے تین سال کا آڈٹ کرانے کا حکم دےا ہے، عدالت نے ہدایت کی موجودہ ایم ڈی پی ایس او سمیت 15لاکھ سے زائد تنخواہ لینے والی سرکاری کمپنیوں کے سربراہوں کی تحقیقات کی جائیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔ چیف جسٹس نے کہا ہم اس معاملے میں تمام آئل کمپنیز کے سربراہوں سے ملنا چاہتے ہیں،21 جولائی کو کراچی میں ہونگا وہاں ان سے ملاقات کریں گے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا میں نے تمام آئل کمپنیز کو کہا ہے عدالتی احکامات پر عمل کررہے ہیں ،ہم کسی کا آڈٹ نہیں کر رہے،چیف جسٹس نے کہا کمپنیاں اپنی تفصیلات نہیں دیتی توہم کے پی ایم جی اور آڈیٹر جنرل کو بلا لیتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا اس عوامی معاملے پر مل بیٹھ کر ایک کمیٹی بنادیتے ہیں، آئل کی کوالٹی پر بھی سوال اٹھے ہیں،اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کرتے ہوئے کہا کوالٹی پر عدالت ریفائنری کو بھی نوٹس جاری کرے،چیف جسٹس نے کہا عدالت آرڈر میںریفائنری کو نوٹس اور ٹی او آرز بنانے کی ہدایت کردے گی، ایم ڈی پی ایس او عدالت میں پیش ہوئے چیف جسٹس نے کہا ہنڈا کمپنی کی شکایت آئی تھی تیل ٹھیک نہیں، شکایت تو جہازوں میں استعمال ہونے والے تیل کی بھی آئی ہیں، اطلاعات یہ بھی ہیں ایران سے سمگل ہونے والے تیل کی کوالٹی پاکستانی ریفائنری والے تیل سے بھی خراب ہے،چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کو بھی محفوظ کرنا ہوگا،ہم مستقبل کےلئے ماضی کی غلطیوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے ، اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا 6 افراد شارٹ لسٹ ہوئے اور سمری تیار ہوئی، ایم ڈی پی ایس او نے کہا انٹرویو اور اہلیت جانچنے کے لئے نجی کمپنی کی سروسز حاصل کی گئیں۔ چیف جسٹس نے کہا عجیب دھندا بنایا ہے نجی کمپنیوں کو کہتے ہیں ہمارے لئے افسر تلاش کریں،گریڈ 20کا افسر 2لاکھ تنخواہ لیتا ہے، ایم ڈی پی ایس او نے کہا میرے عہدے کی مدت تین سال ہے ،تین سال سے کارکردگی بونس نہیں لیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کونسا احسان کیا ہے ،کیوں نہ آپ کو عہدے سے معطل کر دیں، پاکستان میں اس طرح کی چیزیں قابل قبول نہیں، آدھے گھنٹے میں نیب اور ایف آئی اے کو بلالیں،کچھ نہیں کررہے تفتیش کرائیں گے ، ایم ڈی پی ایس او نے کہا او جی ڈی سی کے سربراہ کی تنخواہ 44لاکھ ہے،جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے یعنی سب میں لوٹ سیل لگی ہے،لیتے جاﺅ اس ملک کے ٹیکس پیئرز کی کمائی،ایم ڈی پی ایس او نے کہا میرا تقرر ستمبر 2015ءمیں ہوا، جس پر چیف جسٹس نے کہا مطلب آپ کے دو تین باقی ہیں،چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا اکرام صاحب آپ سے زیادتی نہیں کررہے ہیں، ایم ڈی پی ایس او وفاقی حکومت کتنابجٹ دیتی ہے آپ کو، ایم ڈی پی ایس او نے بتایا پی ایس او کو بجٹ نہیں ملتا، سالانہ انتظامی اخراجات 10سے 12ارب روپے ہےں، ایک سال میں کل منافع 18ارب روپے سے زیادہ ہے،پی ایس او کا کل ریونیو 2.1ٹریلین ہے ،چیف جسٹس نے کہا آپ ایم ڈی ہیں اور 37لاکھ روپے تنخواہ کیوں لیتے ہیں،میرا خیال ہے آپ گزشتہ حکومت میں کسی بڑی شخصیت کے دوست رہے ہیں،ایم ڈی نے کہا میں کسی کا دوست نہیں تھا، اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا انہوں نے سندھ یونیورسٹی سے ماسٹر کیاہے، چیف جسٹس نے کہا غیرملکی نہیں مقامی ڈگری ہے،آپ کو آئل سیکٹر کا کوئی تجربہ نہیں،آپ کا تقرر کس نے کیا؟،جس پر ایم ڈی پی ایس او اکرام الحق نے کہا میری تقرری کی منظوری وزیر اعظم نے دی ،جس پر چیف جسٹس نے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا نام لئے بغیر استفسار کرتے ہوئے کہا آپ کی تقرری عباسی نے کی،جس پر ایم ڈی نے کہا میرا تقرر سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کیا ،چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے کہا اس وقت وزیر پیٹرولیم کون تھا؟، ایم ڈی پی ایس او نے کہا اس وقت وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی تھے جس پر چیف جسٹس نے کہا میں یہی آپ کو دوستی سمجھا رہا تھا، خاموش رہیئے بہترین ایجنسی سے تفتیش کرا لینگے، آپ کو دیکھ کر اوپر پرابلم شروع ہو جاتی ہے،ایم ڈی پی ایس او نے کہا یہ آسامی اشتہار کے ذریعے آئی تھی،عدالت نے پی ایس او کے تین سال کا آڈٹ کرانے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ موجودہ ایم ڈی پی ایس او سمیت 15لاکھ سے زائد تنخواہ لینے والی سرکاری کمپنیوں کے سربراہوں کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے ، چیف جسٹس نے کہا شاہد خاقان کو ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا،چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ شاہد خاقان کو نہیں جانتے تھے؟، ایم ڈی پی ایس او نے کہا وزیر بننے سے پہلے کبھی شاہد خاقان سے نہیں ملا، چیف جسٹس نے کہا مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا جب تک آڈٹ نہیں ہوتا، عدالت نے پی ایس او کے آڈٹ سے متعلق پیش کردہ ٹی او آر منظور کرلئے ،آڈیٹر جنرل کے علاوہ نجی آڈٹ فرم کے پی ایم جی پی ایس او کا آڈٹ کیا جائے گا، آڈٹ پیٹرولیم مصنوعات کی خریداری، فروخت اور انتظامی امور کیا جائیگا،پی ایس او سمیت تمام ادارے اس آڈٹ میں آڈیٹر فرم کے ساتھ تعاون کرینگے،کمپنی کو 3.4ملین روپے آڈٹ کے ادا کئے جائینگے، عدالت نے حکم دیا آڈیٹر فرم 5ہفتے کے اندر رپورٹ عدالت میں جمع کرائیگی، نیب تعیناتیوں سے متعلق تحقیقات 6ہفتوں میں مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ کس کس نے تعیناتی کی کیا مراعات دی گئیں؟، تفصیلی رپورٹ پیش کی جائے،بعدازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں اسحاق ڈار کی وطن واپسی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران وزارت داخلہ کی طرف سے اسحاق ڈار کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے سے متعلق رپورٹ پیش کردی، اسحاق ڈار کی واپسی کیلئے ریڈ وارنٹ جاری کردیئے گئے ہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی، عدالت میں اٹارنی جنرل نے وزارت داخلہ کی طرف سے اسحاق ڈار کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے سے متعلق رپورٹ پیش کی، اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا اسحاق ڈار کی وطن واپسی کیلئے ریڈ وارنٹ جاری کردئیے ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا اسحاق ڈار کا پاسپورٹ منسوخ کیا گیا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا پاسپورٹ منسوخی کو وطن واپس نہ آنے پر بطور آپشن استعمال کیا جائے گا،وزارت داخلہ نے ایف آئی اے کی درخواست پر اسحاق ڈار کے ریڈ وارنٹ جاری کئے، جسٹس طارق مسعود نے استفسار کیا کیا اسحاق ڈار کی پاکستان میں موجود جائیداد ضبط کی گئی؟، اٹارنی جنرل نے بتایا اسحاق ڈار کی جائیداد ضبط کر لی گئی ہے ، جس پر چیف جسٹس نے کہا ریڈ وارنٹ جاری ہونے کے بعد اگلی کارروائی تک انتظار کر لیتے ہیں، اٹارنی جنرل نے بتایا انٹرپول کا جواب ملنے کا انتظار ہے، بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی کردی۔ خصوصی نمائندہ کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے پولی کلینک ہسپتال اسلام آباد کا دورہ کیا اور ہسپتال کے مختلف شعبوں میں گئے اور مریضوں کو دستیاب سہولتوں کا جائزہ لیا اور مریضوں سے خیریت دریافت کی اور ان کو درپیش مسائل سے آگاہی حاصل کی۔ چیف جسٹس نے ہسپتال کی فارمیسی کا بھی دورہ کیا۔ چیف جسٹس نے ہسپتال میں مزید بہتری لانے کے لئے اقدامات کرنے کا حکم دیا۔ آن لائن کے مطابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے دوسری مرتبہ پولی کلینک ہسپتال کا دورہ کیا۔ ادویات کی عدم دستیابی اور غیر معیاری ادویات کی فراہمی پرایک مرتبہ پھر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا مجھے تو بتایا گیا تھا سب دوائیاں موجود ہیں۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر پولی کلینک اور انچارج ایمرجنسی کی سرزنش کی، دورے کے دوران مریضوں نے شکایات کے انبار لگا دیئے۔آئی این پی کے مطابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے اس ملک میں کیا لت پڑی ہوئی ہے ٹیکس کا پیسہ لٹایا جائے، چیف جسٹس نے پی ایس او کے مینجنگ ڈائریکٹر سے مکالمہ کیا آپ کا تو پٹرولیم کا تجربہ ہی نہیں ، حکومت کا یہ طریقہ کار ہے نجی کمپنیاں بناﺅ، اپنے بندے لگا ﺅاور ان کو فائدے پہنچاﺅ، کیوں نا آپ کو معطل کر دیا جائے؟ سپریم کورٹ نے ایل این جی درآمد سے متعلق تفصیلات طلب کرلیں۔ چیف جسٹس نے کہا وزارت پٹرولیم اور نیب ایل این جی درآمد سے متعلق تفصیلات پیش کرے۔ چیف جسٹس نے جی سیون کچی بستی کا دورہ کیا۔ کچی بستی کے مکینوں نے شکایات کے انبار لگا دیئے۔ چیف جسٹس نے کہا کچی آبادیوں کے مسائل منتخب لوگوں نے ہی حل کرنے ہیں۔ سیاستدانوں کو میرے نوٹس لینے پر خیال آیا تو اچھی بات ہے۔ دیکھنا ہے کہ کچی آبادی والوں کو ان کے حقوق مل رہے ہیں یا نہیں؟کچی بستیوں میں دورے کا مقصد بنیادی حقوق کی فراہمی ہے۔ چیف جسٹس نے سیکٹر ایف سیون کی فراش کالونی کا دورہ کیا۔
اسلام آباد(صباح نیوز‘ آئی این پی) ایف آئی اے نے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ریڈ وارنٹ جاری کرتے ہوئے ان کی گرفتاری کے لیے انٹرپول کو درخواست دے دی۔پاناما کیس کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کا ریفرنس احتساب عدالت میں دائر کیا جس میں انہیں مفرور قرار دیا جاچکا ہے۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اسحاق ڈار کی وطن واپسی سے متعلق کیس کی سماعت کی ۔ اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔انہوں نے عدالت کو بتایا اسحاق ڈار کے ریڈ وارنٹ جاری کر دیئے گئے ہیں، وزارت داخلہ کی منظوری کے بعد ایف آئی اے نے ریڈ وارنٹ جاری کئے۔ ایف آئی اے نے وزارت داخلہ کی منظوری کے بعد انٹرپول کو درخواست کردی ہے۔دوران سماعت وزارت داخلہ کی جانب سے اسحاق ڈار کی واپسی سے متعلق جواب بھی سپریم کورٹ میں جمع کرایا گیا۔ جسٹس سردار طارق نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا اسحاق ڈار کی بیرون ملک جائیداد ضبط کرنے کے حوالے سے کیا کیا؟ اس پر انہوں نے بتایا جائیداد ضبطگی کی درخواست بھی ریڈ وارنٹ کے ساتھ لگا دی ہے۔ وزارت داخلہ نے اسحاق ڈار کے ریڈ وارنٹ کے اجرا کی منظوری دے دی جس کے بعد وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے)نے ان کے ریڈ وارنٹ جاری کردیئے ہیں۔سابق وزیر خزانہ کی گرفتاری کے لیے انٹرپول کو درخواست دے دی گئی ہے اور انہیں انٹرپول کے ذریعے ہی وطن واپس لایا جائے گا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا اسحاق ڈار کا پاسپورٹ منسوخ کیا گیا ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا پاسپورٹ منسوخی کا آپشن زیر غور آیا تھا۔ پاسپورٹ منسوخ کیا تو واپس نہ آنے کا جواز بن جائے گا۔ عدالت نے استفسار کیا اسحاق ڈار کے ریڈ وارنٹ کب تک جاری ہو جائیں گے؟ اٹارنی جنرل نے بتایاحتمی فیصلہ انٹرپول نے کرنا ہے۔ جسٹس اعجاز الحسن نے کہا ایف آئی اے انٹرپول سے رابطے میں رہے۔ سپریم کورٹ نے اسحاق ڈار کی وپسی سے متعلق کیس کی سماعت 2 ہفتے کیلئے ملتوی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر پیش رفت کے حوالے سے رپورٹ طلب کر لی۔