میاں محمد نواز شریف کے ہیتھرو سے لاہور کے فضائی سفر کا پس منظر اور دوران سفر ان کی سوچ اور خیالات کو جاننے کے لئے پاکستانی عوام، سیاستدان اور مقتدر حلقہ سبھی اندازے لگا رہے ہیں۔ ٹی وی ٹاک شوز اوراخبارات کے تبصرے بھی تسلسل سے جاری ہیں۔ میاںنواز شریف صاحب کے ہم سفر ممتاز صحافی ودانشور اور دیرینہ رفیق محترم عرفان صدیقی نے اپنے اچھوتے انداز میں اس تاریخی سفر کی روائیداد پہلی قسط کے طور پر کل( ہفتہ) اخبار نوائے نوائے وقت میںشائع کی ہے۔ اپنی تحریر کے آخری پیرہ گراف میں صدیقی صاحب راقم طراز ہیں۔
"طیارہ وقت کے عین مطابق صبح ساڑھے چھ بجے ابو ظہبی اترا اور یہاں سے حیرتوں کا ایک باب شروع ہو ا، حکم ہوا کہ ہم لوگ طیارے ہی میں رہیں۔سارے مسافر اترنے کے بعد ہمیں اجازت ملی۔ جہاز کے ساتھ تین چار گاڑیاں کھڑی تھیں سفید لمبی عبائوں والے اعلیٰ پروٹوکول افسران اور چاق و چوبند پولیس، میاںصاحب نے قدرے حیرت کا اظہار کیا…ہمیں انتہائی احترام کے ساتھ ایک انتہائی آراستہ و پیراستہ مہمان خانے میں لایا گیا…ھوروں اور گرم گرم قہوے سے تواضع کی گئی…میں نے مزاقاً کہا کہ میاں صاحب لگتا ہے کہ ہم زیر حراست ہیں، انہوں نے میرے خیال کی تائید کی۔ پروٹوکول کے انچارج سے پوچھا کیا ماجرہ ہے…اس نے معصومیت سے کہا"بس سر اوپر سے حکم ہے" ہم یہ منطق سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے سوچتے رہے کیا ناصر الملک یا حسن عسکری اتنے طاقتور ہو گئے ہیں؟ہماری فلائٹ میں بھی دو گھنٹے کی تاخیر ہو گئی۔ اس کے بعد افواہوں، واہموں اور خدشوں کی آندھی چل پڑی اور دیر تک چلتی رہیـ"۔(باقی کل کے شمارے میں)
آگے کیا ہوا اس کی تفصیل تو عرفان صدیقی صاحب اتوار کو ہی ہمیں بتائیں گے لیکن بطور رپورٹر ہمیں بھی ایک معروف سابق سفارتکار ظفر ہلالی صاحب نے تو یہ بتایا کہ متحدہ عرب امارات کے پرنس محمد کی جانب سے ائیرپورٹ لائونج میں میاں صاحب کو ایک سیل بند لفافہ پہنچایا گیا جس میں تحریر تھا کہ میاں صاحب اگر آپ پاکستانے جانے کی بجائے متحدہ عرب امارات میں قیام فرمانا چاہئیں تو ہمیں آپ کی میزبانی کر کے خوشی ہو گی۔ آپ اس وقت تک یہاں قیام کر سکتے ہیںجب تک پاکستان میں حالات آپ کی مرضی کے مطابق درست نہ ہو جائیں ۔اطلاعات کے مطابق میاں صاحب نے اس پیش کش کو قبول کرنے سے معذرت کر لی اور یوں انہوں نے "پناہ" کی بجائے "قید" کر ترجیح دی۔
میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی مریم نواز اب اپنے وطن میں اپنوں کی قید میں ہیں ۔ تجزیہ نگار اس حوالے سے جو بھی تبصرے کریں ان کی اہمیت اپنی جگہ ضرور ہو گی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ میاں صاحب نے عدلیہ کے احترام میں واپس آ کر جیل جانے کا جو فیصلہ کیا ہے اس سے ان کے سیاسی قد میں اضافہ ہوا ہے ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن ، ایک سیاسی قوت کے طور پر پاکستانی سیاسی افق پر نمایاں رہے گی اور مستقبل قریب میں ان کی صاحبزادی مریم نواز ایک سیاسی قوت کے طور پر بلاول زرداری اور حمزہ شہباز کی نسبت زیادہ پذیرائی حاصل کریں گی۔ اگر میاں صاحب لندن میں ہی مقیم رہتے یا ابو ظہبی میں سیاسی پناہ حاصل کر لیتے تو ن لیگ اور نواز شریف پاکستانی سیاسی تاریخ میں ایک پیرا گراف سے زیادہ جگہ حاصل نہ کر سکتے۔ اب ذوالفقار علی بھٹو کی طرح نواز شریف بھی ایک تاریخی سیاسی قوت تصور کئے جائیں گے۔میاں صاحب اور مریم نواز کی واپسی کی وجہ سے جمعہ کو سارا دن اور رات ٹی وی سکرین پر عمران خان کا تقریباً بلیک آئوٹ رہا ہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ 25جولائی تک میڈیا کی نظر میںنواز شریف کو عمران خان پر ہر طرح فوقیت رہے گی۔عمران خان کے پاس پاکستانی عوام کو گھیرنے کے لیے اب نیا کچھ نہیں لیکن نواز شریف اور ن لیگ کے بیانیے کو میاں صاحب کے جیل جانے سے نئی قوت ملی ہے۔ بلا شبہ میاں صاحب کے لیے اب بھی "عشق کے کئی امتحان" باقی ہیں لیکن تصور کیجئے کہ اگر میاں صاحب اور مریم یا صرف مریم اور صفدر کو ضمانتی رہائی مل گئی تو کیا ہو گا؟
انتخابات میں صرف دس یوم باقی ہیں اگر یہ تینوں یا دونوں ضمانت پر رہا ہو کر ن لیگ کے انتخابی جلسوں کی زینت بنے تو کم از کم پنجاب میں عمران خان کا خواب چکنا چور ہو جائے گا۔ ان حالات میں عمران خان اور سکرپٹ رائٹرزدونوں ہی کڑے امتحان سے گزریں گے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کے پچاس سالہ تجزیے کی بنیاد پر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اب پاکستان کا سیاسی نظام پرانی ڈگرپر نہیں چل سکتا۔وقت کا تقاضہ ہے کہ زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر سیاسی قوتوں کو ان کا جائز حق دیا جائے۔ پاکستان اس وقت انتہائی کڑے مرحلے سے گزر رہا ہے، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے دو نوجوان اور حب الوطن سیاسی قائدین اپنے سینکڑوں درد مند پاکستانی ووٹرز کے ساتھ شہید ہو چکے ہیں۔یہ سب کچھ ہماری نا عاقبت اندیش پالیسیوں ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔بھارت، امریکہ اور افغانستان ہمارے خلاف دانت پیس رہے ہیں۔ دہشت گردی کا افریت دوبارہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ فنا نشل ایکشن ٹاسک فورسی یعنیFATFکی گر ے لسٹ ہمیں بلیک لسٹ کی جانب لے جا رہی ہے۔ عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔عدلیہ نے ڈیم بنانے کے لیے عوام کے سامنے کشکول پھیلا دیا ہے۔ بیرونی امداد تقریباً بند اور قرضہ اژدھا بنا ہوا ہے۔لیکن ہم ہیں کہ کبوتر کی طرح بلی کو دیکھ کر آنکھ بند کر کے بیٹھے ہیں۔
دور اب بدل چکا ہے ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق کیوںنہیں سیکھ رہے۔ اب ہم ایک گلوبل ویلج کا حصہ ہیں۔ ہماری بہت جگ ہنسائی ہو چکی۔ہم کب ہوش کے ناخن لیں گے۔ملکی معیشت، مہنگائی، بے روزگاری اور بے یقینی نے ہمیں کچل کر رکھ دیا ہے۔ کاش ہم صرف اسی اصول پر کام کر سکیں کہ "جس کا جو کام ہے وہ وہی کام کرے"۔
اب بھی وقت ہے…اگر آج بھی یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ 25جولائی کے انتخابات کو کسی بھی طرحٖ انجینئرڈ نہیں کیا جائے گا اور غیر جانبدارانہ انتخابات میں جو عوام کا فیصلہ ہو گا وہ ہی قوم کا فیصلہ تصور کیا جائے گا !تو بہت حد تک ہم اپنے derailedسیاسی نظام کو پٹری پر چڑھا سکیں گے ورنہ…؟