سید مودودیؒ اور آغا شورش کاشمیریؒ کی ’’کچھ باتیں کچھ یادیں‘‘

یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں
1968-69ء کو آتش جواں تھا سابق صدر ایوب خان کے خلاف تحریک عروج پر تھی میں بھی گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ اصغر مال راولپنڈی کی سٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے تحریک میں ’’سرگرم عمل تھا۔ ملک کے طول عرض میں ایوب خان کی حکومت کے خلاف تحریک زوروں پر تھی۔ پنجاب کے دل ’’لاہور‘‘ میں تو آگ لگی ہوئی تھی زندہ دلان لاہو ر کے لئے جلسے جلوس روزمرہ کا معمول بن چکے تھے مال روڈ پر پنجاب اسمبلی کے باہر وکٹوریہ کے چبوترے کے نیچے بھوک ہڑتالی کیمپ لگا تو میں بھی اس کیمپ میں بیٹھ گیا تو رات کے پچھلے پہر اس وقت کے ایس ایس پی اصغر خان المعروف ’’ہلاکو خان‘‘ (بھکر سے قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں آئے) نے ہم سب کو پولیس کے ذریعے اٹھوا کر چونیاں میں نہر کے کنارے پھینکوا دیا جہاں سے ہم لٹے پھٹے قافلے کی طرح لاہور پہنچے تو نامور قانون دان ایم انور بار ایٹ لا نے اپنی جیب خاص سے نئے جوتے خرید کر دئیے مجھے شعلہ بیان خطیب آغا شورش کا شمیری سے ملاقات کا بڑا اشتیاق تھا میری پہلی ملاقات 20ویں صدی کی نابغہ روزگار شخصیت و نامور صحافی خطیب آغا شورش کا شمیریؒ سے میکلوڈ روڈ پر ہفت روزہ چٹان کے دفتر میں ہوئی اس ملاقات نے ان سے ارادت کی شکل اختیار کر لی ۔ ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ ہی میں آغا شورش کا شمیریؒ نے اپنے لیاقت باغ راولپنڈی کے تاریخی جلسہ عام کی رپورٹ میرے نام سے منسوب کر دی اس کے بعد میں نے باضابطہ طور ہفت روزہ چٹان میں ’’اسلام آباد کی سیاسی ڈائری‘‘ لکھنا شروع کی اس دوران ہی کراچی سے ہفت روزہ چٹان میں جلیس سلاسل سیاسی ڈائری شائع ہوا کرتی تھی ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ ہی ہم دونوں میں دوستی کا باعث بنا۔ معماران جلیس‘‘ کے عنوان سے جن شخصیات کے ’’خاکے‘‘ شائع کئے ہیں ان میں سید ابوالاعلیٰ مودودی، آغا شورش کاشمیری، میجر جنرل (ر) غلام عمر، شریف الدین پیرزادہ، نسیم حجازی، پروفیسر ڈاکٹر مسکین حجازی، سلیم احمد، عبد الکریم عابد، علامہ عبد القدوس ہاشمی اور ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان میں ملک کی اہم سیاسی، دینی شخصیات، قانون دان، صحافی اور ماہرین تعلیم اور محقق شامل ہیں جن کے خاکوں میں ملکی سیاست میں ہونے والے اہم واقعات کے بارے میں چونکا دینے والے انکشافات کئے گئے ہیں میرا اور جلیس سلاسل کا پرانا یارانہ ہے اس یارانے کا مشترکہ نکتہ آغا شورش کاشمیری تھے وہ ہم دونوں کے ’’مرشد خاص‘‘ تھے جلیس سلاسل نے سید ابوالاعلیٰ مودودی سے ملاقاتوں پر قلم اٹھایا ہے ان کی سید مودودی سے متعدد ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ملاقاتوں کے دوران سید مودودی سے جلیس سلاسل کو ملنے والی محبت اور شفقت کی خوشبو ان کی ہر سطر سے محسوس ہوتی ہے۔ جلیس سلاسل نے اپنی ملاقاتوں میں دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس کی روئیداد، سید مودودی کا کردار، بنگلہ دیش کو تسلیم کئے جانے کے بعد مزار اقبال پر آغا شورش کاشمیری کی حاضری، بنگلہ دیش کو تسلیم کئے جانے کی خبر موصول ہوتے ہی سید مودودیؒ کی ان ہی قدموں سے پنجاب اسمبلی کے مین گیٹ سے واپسی کا ذکر کیا ہے۔ سید مودودیؒ کا ایک نوجوان صحافی کو انٹرویو اس کی صحافتی زندگی میں بڑی ایچویمنٹ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مولانا مودودیؒ عصر کے وقت عام ملاقاتیوں کے لئے بیٹھتے تھے، پھر مطالعہ میں مصروف ہو جاتے تھے، انہوں نے اپنی ملاقات کی روئیداد سنائی کہ جب وہ دوسری بار سید مودودی سے ملاقات کے لئے گئے تواب کے دفتر میں چوہدری رحمت الٰہی سے واسطہ پڑ گیا۔ چوہدری صاحب نے فرمایا کہ آپ مولانا سے جس غرض کے لئے ملاقات کرنا چاہتے ہیں، میاں طفیل سے مل لیجئے۔ ان کی یہ بات ناگوار گزری۔ انہوں نے کچھ تلخ سا جواب دیا اور کہا کہ اپنی غلط فہمی دور کر لیں میں جماعت اسلامی کے امیر سے ملاقات کیلئے نہیں آیا۔ میں سید ابوالاعلیٰ مودودی سے ملاقات کیلئے آیا ہوں جو تحریک اسلامی کے قائد ہیں۔ مولانا سید مودودی کو اندر تک ہونے والے گفتگو کی آواز سنائی دی تو انہوں نے اپنے ذاتی ملازم کو بھیج کر اندر بلا لیا۔ انہوں نے سید مودودی سے ملاقات کی منظر کشی ان الفاظ میں کی ہے کہ ’’جب میں مولانا مودودی کے کمرے میں داخل ہوا تو ان سے گفتگو کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا، وہ بڑی شفقت سے پیش آئے لیکن گفتگو کا آغاز کرنے کے لئے میں الفاظ کا انتخاب کر رہا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میری زبان کسی کے سامنے گنگ ہو گئی یا بد حواسی طاری ہو گئی۔ لیکن یہ شخص فرشتوں سے بھی بڑھ کر معلوم ہوا۔ بے ساختہ میری زبان سے نکل گیا کہ ’’مولانا! کیا آپ پوپ ہیں، آپ سے کوئی نہیں مل سکتا، آپ سے بالمشافہ رہنمائی نہیں حاصل کر سکتا‘‘۔ مولانا مسکرا دئیے اور فرمایا کہ آپ تشریف رکھیں۔ میں نے بیٹھتے ہی ہمت کر کے پھر سید مودودی سے کہا کہ ’’میں آپ کو خط لکھتا ہوں آپ کے معتمد وغیرہ خطوط کے جواب دے دیتے ہیں، اگر آپ کی طبیعت درست نہ ہو تو میرے خطوط کے جواب کوئی اور نہ دیا کرے، آپ انہیں منع کر دیں کہ وہ میرے خطوط کا جواب نہ دیا کریں، اس پر آپ کے دستخط ہونے چاہئیں۔ مولانا نے اسی وقت اپنے معتمد (غالباً اس وقت غلام علی صاحب تھے جو بعد میں شریعت کورٹ کے جج ہو گئے) کو بلایا اور کہا کہ جلیس سلاسل کے خطوط مجھے دیا کریں میں خود جوابات دیا کروں گا۔ میری خوش قسمتی تھی کہ اس کے بعد میرے تمام خطوط کے جوابات مولانا مودودی نے خود دیئے۔‘‘ انھوں نے فروری 1974 کا ذکر کیا اور کہا کہ ’’جب بھی میں چند روز کے لئے لاہور آیا تو آغا شورش کاشمیری تفریح کی غرض سے مجھے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ آغا شورش کاشمیری کے ہمراہ سیر کے لئے نکلا تو پہلے ہم احسان دانش کے دولت کدہ پر انار کلی گئے، آغا شورش نے پہلے ان سے میرا تعارف کرایا کہ میرا شاگرد جلیس سلاسل ہے۔ اس کے بعد ہم وہاں چائے وغیرہ پی کر مینار پاکستان کی طرف چلے گئے جہاں اسلامی سربراہ کانفرنس کے شرکاء کو آنا تھا، اس لئے زبردست پہرہ لگا ہوا تو لیکن آغا شورش اور میں وہاں تک پہنچ گئے۔ ابھی مینار پاکستان کے نیچے کھڑے تھے کہ پولیس افسر نے جس کی وہاں ڈیوٹی لگی تھی، آ کر اطلاع دی کہ ’’بنگلہ دیش ‘‘منظور ہو گیا ہے۔ بس اتنا سننا تھا کہ آغا صاحب نے کہا کہ چلو مزار اقبال ۔ مینار پاکستان کے سامنے ہی بادشاہی مسجد ہے۔ اس کے دامن میں شاعر مشرق علامہ اقبال کا مزار ہے۔ ایک لمحے کا انتظار کئے بغیر آغاز شورش کاشمیری مزار اقبال پہنچ گئے۔ ان کے ہمراہ میرے علاوہ چٹان کے پریس منیجر تھے۔ ہم فاتحہ پڑھ کر باہر نکلنے کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ میری نظر آغا صاحب پر پڑی، وہ بالکل ساکت کھڑے تھے کافی دیر ہو چکی تومیں نے چونک کر انھیں دیکھا اور بے اختیار میری زبان سے نکل گیا’’ سر آپ کیا سوچ رہے ہیں‘‘ قائد صحافت مرد آہن آغا شورش کاشمیری کی آنکھیں نم ہو گئیں اور زیر لب اتنا کہا کہ ’’میں سوچ رہا ہوں کہ آج علامہ اقبال کی قبر تو نہیں شق ہو گئی‘‘۔ بس اتنا کہا اور تیزی سے باہر نکل آئے۔ مزار اقبال سے باہر نکلتے ہی کہنے لگے’’ تم سید مودودی کے پاس جا کر معلوم کرو کہ وہ بھی اس جرم میں شریک تھے‘‘فروری 1974 میں لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہ کانفرنس کے میزبان وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ اس کانفرنس میں سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل، لیبیا کے معمر قذافی، بنگلہ دیش کے وزیراعظم شیخ مجیب الرحمان شریک ہوئے تھے۔ شاہ فیصل کو نماز جمعہ میں اس’’ حادثے‘‘ پر زار و قطار روتے دیکھا گیا جس کی گواہی ملک کے تمام اخبارات کی تصاویر دیتی تھیں جبکہ لیبیاء کے معمر قذافی اس ’’حادثے‘‘ کے بعد وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی حمایت میں تقریریں کرتے پھر رہے تھے۔ اس یادگار موقع پر ہی لاہور کے سٹیڈیم کا نام قذافی سٹیڈیم رکھاگیا۔ سید ابو الاعلی مودودی کی رہائش اچھرہ میں تھی جلیس سلاسل کی ان سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے بیٹھتے ہی مولانا سے سوال کیا کہ ’’آپ اس سربراہ کانفرنس میں کیوں گئے تھے جس کا مقصد پاکستان کے دو ٹکڑوں کو سند دینا تھی‘‘، یہ پہلا اتفاق تھا کہ نوجوان صحافی نے سید مودودی سے بلا خوف اس قدر چبھتا سوال کر دیا ۔ سید مودودی ؒ نے کہا کہ ’’دراصل وزیراعظم پاکستان نے مجھے پہلے دعوت تو نہیں دی تھی لیکن شاہ فیصل نے سربراہ کانفرنس کے آغاز میں ذوالفقار علی بھٹو سے پوچھا کہ’’ کیا بات ہے مولانا مودودی نظر نہیں آرہے ‘‘ تو بھٹو نے کہا کہ’’ وہ آتے ہی ہوں گے‘‘ جس کے بعد بھٹو نے انہیں لینے کے لئے غلام مصطفیٰ کھر اوردو وزراء بھجوا دیئے ‘‘ سید مودودیؒنے ان کے ساتھ جانے انکار کر دیا لیکن انھوں نے شاہ فیصل کا حوالہ دیا تو وہ ان کے ساتھ جانے پر آمادہ ہو گئے سید مودودی نے بتایا کہ ’’ ابھی میں پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر ہی تھا، مجھے گورنر مصطفیٰ کھر اور دونوں وزراء سہارا دے کر اوپر چڑھا رہے تھے’’ کوئی شخص دوڑتا ہوا آیا کہ بنگلہ دیش منظور ہو گیا ہے‘‘۔ بس یہ سننا تھا کہ میرے پائوں اچانک رک گئے اور ان لوگوں کی گرفت بھی ڈھیلی پڑ گئی۔ میں تیزی سے نیچے کی جانب اتر آیا ۔ بس پھر میرا اوپر جانا ، اس تقریب میں شرکت کرنا کیسے ممکن ہو سکتا تھا۔ میں واپس اپنے گھر چلا آیا۔ انھوں نے بتایا کہ بس اللہ نے مجھے بچا لیا۔ کالم کی طوالت کے باعث دیگر شخصیات کے خاکوں کی تفصیلات بتانے کا حوصلہ نہیں پڑ رہا۔

ای پیپر دی نیشن