کنجاہ ضلع گجرات کا ایک قصبہ ہے۔ اس چھوٹے سے قصبے میں ادبی حوالے سے نامور شخصیات نے جنم لیا جن میں غنیمت کنجاہی، شریف کنجاہی، روحی کنجاہی، زہیر کنجاہی، منیر صابری کنجاہی، شاکر کنجاہی و دیگر شامل ہیں۔ ان میں ایک نام اکرم کنجاہی کا بھی ہے۔ جن کا اصل نام محمد اکرم بٹ ہے۔ انھوں نے ’’بٹ‘‘ لکھنے کے بجائے’’کنجاہ‘‘ جیسے چھوٹے قصبے کو اپنے نام کا حصہ بنایا اور اپنے قصبے پر فخر محسوس کیا۔
زمان کنجاہی اور اکرم کنجاہی میں بعض باتیں مشترک ہیں۔ دونوں کا سن پیدائش تاریخی حوالے سے اہمیت رکھتا ہے۔ زمان کنجاہی 1947ء اور اکرم کنجاہی 1965ء میں پیدا ہوئے۔ یعنی 1947ء قیام پاکستان کا سال اور 1965ء پاک بھارت جنگ کے حوالے سے اہم سال۔ زمان کنجاہی کے بھی متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے اور وہ بھی ’’بٹ‘‘ تھے۔ زمان کنجاہی نے ادبی جریدہ ’’غنیمت‘‘ کا اجرا کیا جس کی ازاں بعد دوبارہ اکرم کنجاہی نے اشاعت شروع کی اور اس پر زمان کنجاہی کا نام بطور ’’بانی مدیر‘‘ شائع ہووتا ہے۔ اکرم کنجاہی کی طرح زمان کنجاہی بھی بینکار تھے۔ زمان کنجاہی 5 فروری 2014ء میں وفات پا گئے۔
اکرم کنجاہی کی پیدائش تو کنجاہ میں ہوئی مگر وہ گجرات، لاہور اور آزاد کشمیر کا سفر کرتے ہوئے بالآخر بسلسلہ ملازمت 1993ء میں کراچی مستقل قیام پذیر ہوئے۔ دراصل کراچی ان کے رزق روٹی کا شہر ہے۔کراچی میں وہ اپنی ادبی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کر رہے ہیں۔ شعری مجموعوں اورفن تقریر کے علاوہ تحقیق و تنقید پر بھی ان کی متعدد کتابیں اشاعت پذیر ہو چکی ہیں۔ حال ہی میں تحقیق و تنقید پر ان کی دو اہم اور ضخیم کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ جن میں ’’نسائی ادب اور تانیثیت‘‘ اور ’’لفظ، زبان اور ادب‘‘ شامل ہیں۔ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی لکھتے ہیں کہ ’’اکرم کنجاہی کراچی میں تیز و تند ہوا کے جھونکے کی مانند آئے اور یہاں کے علمی و ادبی حلقوں میں ایسے گھل مل گئے جیسے وہ برسوں کے ادبی دوست ہوں۔ ملنسارو ہمدرد، خوش اخلاق و خوش گفتار، مجازاََ متمدن، خلیق و شفیق، خود بیان و شیریں سخن انسان ہیں۔ موضوع کو مکمل گرفت میں رکھتے ہوئے بولتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ موضوع پر مستعدی اور سج دھج کے ساتھ بولتے ہیں ان کا حافظہ ماشاء اللہ غضب کا ہے‘‘ اکرم کنجاہی کی تازہ ترین کتاب ’’نسائی ادب‘‘ جو کورونا وائرس کی فضا میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کو زیب اذکار حسین (سیکرٹری حلقہ ارباب ذوق کراچی اور سابق سیکرٹری ادبی کمیٹی کراچی پریس کلب) نے ایک تخلیقی کارنامہ قرار دیا ہے۔ زیب اذکار حسین نے لکھا ہے کہ ’’اکرم کنجاہی کئی میدانوں کے شہسوار ہیں۔ انھوں نے تاریخ ادب کی تمام بڑی فکشن نگاروں پر سیر حاصل بات کرنے کے ساتھ ساتھ رضیہ سجاد ظہیر، فہمیدہ ریاض، شاہدہ لطیف، نسیم انجم، شہناز پروین، ڈاکٹر تنویر انور خان اور سیمیں کرن کی فکشن نگاری پر مضامین تحریر کیے ہیں۔ وہ بار بار سراہے جانے کے لائق ہیں‘‘ نسائی ادب میں اکرم کنجاہی نے نسائی شاعری کا ارتقا، نسائی فکشن کا ارتقا اور نسائی شاعری پر سیر حاصل مضامین لکھے ہیں۔
ان کی دوسری اہم تصنیف جو حال ہی میں اشاعت پذیر ہوئی ہے وہ ’’لفظ، زبان اور ادب‘‘ ہے۔ اس میں فکریات، شعریات اور نثریات کے ابواب شامل ہیں۔ اکرم کنجاہی سے میرا تعلق دیرینہ ہے۔ جب وہ لاہور میں مقیم تھے تو ان سے متعدد ملاقاتیںرہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ہجرت‘‘ میں جہاں ’’ہجر‘‘ کا دکھ چھپا ہوا ہے وہاں انسان کے تجربات میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور پھر کراچی، پاکستان کا وہ شہر ہے جہاں تمام قومیتوں کے لوگ آباد ہیں۔ یہ شہر ایک بڑا ادبی مرکز ہے۔ کراچی میں راغب مراد آبادی جیسے بڑے شاعر کی راہنمائی اکرم کنجاہی کو حاصل ہوئی۔ اس طرح ان کی شاعری میں مزید نکھار پیدا ہوا۔ راغب مراد آبادی کو زبان اور بیان میں بڑی قدرت حاصل ہے۔ بدیہہ گوئی میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔
اکرم کنجاہی ادب برائے زندگی کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک شاعری کو صرف گل و بلبل یا محبوب کے رخساروں کی تعریف تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ اس میں ہمارے ارد گرد کے مسائل کو بھی بیان ہونا چاہیے۔ وہ سینئر بینکار ہیں۔ بینکاری کے شعبہ سے وابستہ بعض شخصیات نے شعر و ادب میں نام اور مقام بنایا۔ ان میں اکرم کنجاہی کے علاوہ جمیل الدین عالی، احمد مشتاق، مشتاق احمد یوسفی، افتخار جالب، حسین مجروح، شاہد واسطی، زمان کنجاہی، سلیم کاشر، مقصود وفا و دیگر شامل ہیں۔